Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

8 - 34
دل ٹیڑھا نہیں ہوگا تو مستقیم رہے گا۔ معلوم ہوا کہ عدمِ ازاغت ہی استقامت ہے۔ لَاتُزِغْ کےمعنیٰ ہیں کہ ہمارے دل کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجیے یعنی ہمیں استقامت عطا فرمائیےبَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا بعد اس نعمت کے کہ آپ نے ہم کو ہدایت سے نوازا تو پھر اب دوبارہ گمراہی سے بچائیےوَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اور ہمیں ایک خاص رحمت ہبہ کردیجیے۔ مگر ہبہ میں اور رحمت میں فصل کیوں فرمایا؟ ہبہ کے بعد فوراً رحمت کالفظ نازل نہیں فرمایا بلکہ موہوب، واہب اور نعمتِ ہبہ میں تین الفاظ سے فاصلہ کردیا، ایک لَنَا، دوسرا  مِنْ اور تیسرالَدُنْکَ پھر  رَحْمَۃً  کی نعمت کوبیان فرمایا تاکہ میرے بندوں کو شوق پیدا ہو جائے کہ وہ کیا چیز ہے جو    اللہ تعالیٰ بندوں سے منگوانا چاہ رہے ہیں؟ جیسےابا بچے کو لڈو دکھائے اور ذرااُونچا کرلے تو بچہ اشتیاق کے مارے اُچھلنے لگتا ہے، تو اِشْتِیَاقًالِقُلُوْبِ الْعِبَادِاللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں شوق پیدا کرنے کے لیے فاصلہ فرمادیا۔یہاں رحمت سے کیا مراد ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں فرماتے ہیں:
اَلْمُرَادُ بِالرَّحْمَۃِ الْاِنْعَامُ الْمَخْصُوْصُ وَھُوَ  التَّوْفِیْقُ لِلثَّبَاتِ  عَلَی الْحَقِّ
یہاں رحمت سے مراد عام رحمت نہیں ہے۔ روٹی ،بوٹی، لنگوٹی کی نعمت نہیں ہے، بلکہ یہاں مراد خاص رحمت ہے اور وہ دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق ہے جس کواستقامت کہتے ہیں۔ پس یہاں رحمت سے مراد استقامت ہے اور استقامت کی نعمت جس کو عطا ہوگی اس کا خاتمہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ایمان پر ہوگا، کیوں کہ جو سیدھے راستے پر جارہا ہے وہ منزل پر پہنچ جائے گا اور اس کی دلیل کیا ہے کہ یہ عدمِ ازاغت سے شروع ہوا ؟ اُس کے بعد ہدایت ملنے پر   اظہارِ تشکر سکھایا ، آخر میں رحمت ِ خاصہ کا سوال ہوا۔ پس سیاق وسباق بتاتے ہیں کہ یہاں رحمت سے مراد استقامت ہے۔ دوستو! تائب کا شعر ہے؎
ہماری آہ  و فغاں یوں ہی بے سبب تو نہیں
ہمارے  زخم  سیاق  و  سباق  رکھتے    ہیں
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ ہبہ نازل فرما کر اپنے بندوں کو ایک عظیم تعلیم عطا فرمائی کہ نعمتِ استقامت ، حسنِ خاتمہ اور جنت اپنے اعمال سے نہیں پاسکتے، لہٰذا 
Flag Counter