Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

17 - 34
کر چلے گئے۔ اِسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَتَرَکُوْکَ قَاۤئِمًا10؎ اور آپ کو کھڑا ہوا تنہا چھوڑدیا۔ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ یہ آیت دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کھڑے ہو کرد یتے تھے۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ دس بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رہ گئے تھے۔ سرور عالمِ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ دس بارہ صحابہ نہ ہوتے تو نبی کے ساتھ بے ادبی کی وجہ سے مدینہ پر آگ برس جاتی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سب کو معاف کردیا11؎ اور صحابہ سے راضی ہوگیا،رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ اللہ صحابہ کرام سے خوش ہوگیا اور صحابہ اللہ تعالیٰ سے خوش ہوگئے۔ جب اللہ تعالیٰ خوش ہوجائے اور معاف کردے، تو کسی خبیث کو اجازت اور اختیار نہیں کہ وہ اپنی عدالت میں جرح اور تنقید کے لیے ان کا تذکرہ کرے۔ سمجھ رہے ہیں آپ؟ جب اللہ تعالیٰ خوش ہوجائے اور کہہ دے کہ میں نے معاف کردیا ہم راضی ہیں، تو تم کون ہو ان پر تنقید کرنے والے ؟ یہ وہی شخص ہے جو اولیاء اللہ کے بارے میں کیڑے نکالتا ہے اور جب کیڑے نہیں ملتے تو کیڑے ڈالتا ہے۔ یہ ڈبل مجرم ہے۔
۵)حَسَنَۃً  کی پانچویں تفسیر ہے  اَلْمَالُ الصَّالِحُ رزقِ حلال۔
۶)چھٹی تفسیر ثَنَاءُ  الْخَلْقِ مخلوق میں اس کی تعریف ہو۔آج کل جاہل صوفی گھبراجاتا ہے کہ ہائے میری تعریف ہورہی ہے۔ایک صاحب نے کہا کہ میں تسبیح لیتا ہوں تو مجھے یہ خیال آتا ہے کہ لوگ مجھے کہیں نیک نہ سمجھنے لگیں ۔ تو میرے شیخ حضرت شاہ  ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایاکہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو بدمعاش کہیں؟ ارے بھئی! اگر لوگ نیک کہتے ہیں تو شکر کرو، بس تم اپنے کو نیک مت سمجھو۔ مخلوق میں اگرتعریف ہوتی ہے ہونے دو ، اپنی نظر میں حقیر ہونا مطلوب ہے اور مخلوق میں عظمت اور جاہ اور عزت مطلوب ہے، اس کی دُعا سکھائی گئی ہے۔
صبر کے معنیٰ
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا اے اللہ! مجھے
_____________________________________________
10؎  الجمعۃ:11
11؎   روح المعانی:107/28،الجمعۃ (11)،داراحیاءالتراث،بیروت
Flag Counter