رہے اور وہ میرے بندوں پر یہ احسان نہ جتلا سکیں کہ تم تو نالائق تھے، ہم نے تمہارے گناہوں کو مٹایا تھا۔ دیکھی آپ نے اللہ تعالیٰ کی بندہ پروری! اس موقع پر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر ہے؎
مجھ سے طغیانی و فسق و سرکشی
تجھ سے بندہ پروری ہوتی رہی
آپ تو بندہ پروری فرماتے رہے اور ہم اپنی نالائقیوں سے باز نہ آئے۔
تو بہ کی برکت سے فرشتوں کی گواہی مٹانے کے بعد اعضا کی گواہی کو بھی اللہ تعالیٰ مٹادیتے ہیں،یعنی جن اعضا سے گناہ ہوا تھا ان اعضا سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو محو کردیتا ہے اور جس زمین پر گناہ ہوئے تھے ان کے نشانات کو بھی اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے خلاف کوئی گواہی دینے والا نہ ہوگا۔ وَاغْفِرْلَنَا کی تفسیر ہے بِاِظْھَارِالْجَمِیْلِ وَسَتْرِ الْقَبِیْحِ19؎یعنی آپ میری بُرائیوں کو چھپادیجیے اور میری نیکیوں کو ظاہر کردیجیے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَاے اللہ !ہم لوگوں سے ایسے بڑے بڑے کام ہوجائیں کہ قیامت تک ان کا چرچا ہوتا رہے۔ وَاغْفِرْلَنَا کی یہ تفسیر روح المعانی میں ہے۔
کون سی جاہ محمود ہے؟
اب اگر کوئی کہے کہ نیکیوں کو ظاہر کرنے کی طلب تو حبّ جاہ ہے، تو یہ حبّ جاہ نہیں ہے۔ حبّ جاہ وہ ہے جو اپنے نفس کے لیے جاہ چاہے،اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے چاہے کہ اللہ مخلوق میں ایسی عزت دے کہ جب میں بیان کروں تو سب لوگ سرآنکھوں پر رکھ لیں، تو یہ طلبِ عزت برائے ربُّ العزت ہے۔ جاہ وہ مذموم ہے جو اپنے نفس کی بڑائی کے لیے ہو۔ جو بڑائی اللہ کے لیے ہو وہ مذموم نہیں۔مثلاً ہم اچھا لباس اس لیے پہنیں کہ لوگ مولویوں کو حقیر نہ سمجھیں، چندہ مانگنے والا بھک منگانہ سمجھیں تو یہ بڑائی اللہ کے لیے ہے اور مطلوب ہے۔ جو
_____________________________________________
19؎ روح المعانی :71/3، البقرۃ (286)، داراحیاءالتراث، بیروت