Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

11 - 34
دل نور سے بھر جاتا ہے تو چھلکنے لگتا ہے اور پھر چہروں سے جھلکنے لگتا ہے اور آنکھوں سے ٹپکنے لگتا ہے۔ یہ بات میں نے اپنے شیخ سے پھولپور میں سنی تھی، مگر جب یہاں تفسیر روح المعانی دیکھی تو اس میں بھی بعینہٖ وہی مضمون تھا جو میرے شیخ نے بغیر روح المعانی دیکھے فرمایا تھا کہ  سِیْمَا کیا ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ھُوَ نُوْرٌ یَّظْھَرُ عَلَی الْعَابِدِیْنَ
سیماایک نور ہے جو عبادت کرنے والوں کے چہرے پر ظاہر ہوتا ہے، مگر یہ نور آتا کہاں سے ہے؟
یَبْدُوْ مِنْ بَاطِنِھِمْ عَلٰی ظَاہِرِ ھِمْوہ باطن کا نور ہوتا ہے جو اُن کے جسم پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔
جب دل نور سے بھر جاتا ہے تو وہ نور چھلکنے لگتا ہے اور ان کے چہروں سے جھلکنے لگتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ چہر ہ ترجمانِ قلب ہے، اگر قلب میں مولیٰ ہے تو چہرہ ترجمان تجلیاتِ مولیٰ ہے، اور اگر قلب میں معشوق یا معشوقہ ہے تو اس کا قلب ترجمانِ مقاعد الرجال یا ترجمانِ فروج النساء ہوتا ہے۔ کٹا پھٹا منحوس چہرہ ہوتا ہے کٹی  پھٹی بندر گاہ کی طرح، کیوں کہ بندروں جیسا کام کرتا ہے، ایسا شخص نہ تو قسمت کا سکندر ہوتا ہے اور نہ ہی اللہ کا قلندر ہوتا ہے بلکہ نفس کا بندر ہوتا ہے۔
کمیتِ علمیہ اور کیفیتِ احسانیہ کا فرق
اِ س لیے کسی عالِم میں خالی یہ مت دیکھو کہ وہ بہت بڑا علم کا سمندر ہے، بلکہ یہ دیکھو کہ قلندر بھی ہے یا نہیں؟ اور قلندر وہی ہوتا ہے جو ایک زمانہ تک کسی قلندر کا غلام یا خادم رہا ہو، کتب بینی سے کوئی قلندر نہیں بنتا، قلندر بنتا ہے قلندر کی خدمت اور صحبت سے، جیسے دیسی آم لنگڑا آم بنتا ہے لنگڑے آم کی قلم سے، کتاب پڑھ کے کوئی دیسی آم لنگڑا آم نہیں بنتا ۔ اس لیے بعضوں کا ایک لاکھ مرتبہ اَللہ، اَللہ کہنا کسی درد بھرے دل کے ایک بار اللہ کہنے کے برابر نہیں ہوتا۔ اللہ کے خاص بندوں کا آہ کے ساتھ ایک مرتبہ اللہ کہنا سارے عالَم کے  اللہ کہنے 
_____________________________________________
7؎   روح المعانی:125/26،الفتح(29)،داراحیاءالتراث،بیروت
Flag Counter