Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

19 - 34
وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَّقِیْنَیہ ترجمہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ مجھےمتقی بنادیجیے۔لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ تاکہ تم شکر گزار ہوجاؤ، نافرمانی کرنے والا حقیقی شکر گزار نہیں ہے۔
مخلوق کی نظر میں حقیر ہونا مطلوب نہیں
اس کے بعدفرمایا:
وَاجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا
اے اللہ! مجھ کو میری نظر میں صغیر کردے، چھوٹا دکھا۔
 ہم اپنے کو طُرَّم خان نہ سمجھیں، خرم خان تو رہو مگر طرم خان نہ سمجھو وَفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا13؎ مخلوق کی نظر میں ہم کو بڑا دکھا دیجیے۔ لہٰذا جب مخلوق عزت کرے تو شکر ادا کرو کہ یہ دعا قبول ہوگئی۔ تو حسنہ کی چھٹی تفسیر ہے ثنائے خلق کہ مخلوق میں تمہاری تعریف ونیک نامی ہو، لیکن تم اپنی تعریف نہ کرو ، نہ اپنے کوبڑا سمجھو۔ یہ ثنائے خلق ’’حسنہ‘‘ کی تفسیر ہے، لیکن جو صوفی علمِ دین نہیں جانتا وہ ایسے موقع پر ڈر جاتا ہے کہ میراتو سب کچھ ضایع ہوگیا۔
۷)ساتویں تفسیر ہے اَلْعَافِیَۃُ وَالْکَفَافُ یعنی عافیت اور غیر محتاجی۔ اور عافیت کے معنیٰ ہیں:اَلسَّلَامَۃُ فِی الدِّیْنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ وَالسَّلَامَۃُ فِی الْبَدَنِ مِنْ سَیِّئِی الْاَسْقَامِ وَالْمِحْنَۃِ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عافیت کے معنیٰ ہیں کہ دین فتنہ سے محفوظ ہو اور بدن بُرے امراض اور محنتِ شاقہ سے محفوظ ہو اور کسی کی محتاجی نہ ہو، یہ بھی حسنہ ہے۔
۸)آٹھویں تفسیر ہے  اَلصِّحَّۃُ وَالْکِفَایَۃُ  صحت ہو اور کفایت ہو کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
۹)نویں تفسیر ہےاَلنُّصْرَۃُ عَلَی الْأَعْدَاءِ دشمنوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی مدد آجائے۔
۱۰)اور آخری تفسیر سن لو یعنی دسویں صُحْبَۃُ الصَّالِحِیْنَ؎14 یعنی اللہ والوں کی صحبت۔  جس کو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی صحبت نصیب ہو اور اللہ توفیق دے اپنے پیاروں کے پاس
_____________________________________________
13؎   کنزالعمال:187/2(3675)،فصل فی جوامع الادعیۃ،مؤسسۃ الرسالۃ
14؎   روح المعانی:91/2،البقرۃ(201)،داراحیاء التراث، بیروت
Flag Counter