Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

13 - 34
شرح مثنوی پر حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ اشکبار ہوگئے
ایک دفعہ میں اپنے سسرال کو ٹلہ سے رات کو تین بجے چلا اور اٹھارہ بیس میل کا فاصلہ طے کرکے فجر کی نماز اپنے شیخ کے ساتھ جماعت سے پڑھی۔ حضرت نے جب سلام پھیر کر مجھے دیکھا تو تعجب سے فرمایا کہ ارے! اس وقت کیسے آگئے؟ میں نے عرض کیا کہ بس آپ سے ملاقات کرنے کو دل چاہ گیا تھا۔ حضرت قرآن شریف اور مناجاتِ مقبول لے کر خانقاہ تشریف لائے اور تخت پر بیٹھ گئے اور پھر کہا: کیسے آنا ہوا؟ بتاؤ ۔میں نے اپنے آنے کی وجہ بتائی کہ میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار کی شرح عطا فرمائی ہے، اگر آپ اس کی تصحیح اور تائید فرمادیں گے تو میں سمجھوں گا کہ میں صحیح سمجھا۔ تو حضرت نے چھ بجے سے میری بات سننی شروع کی اور گیارہ بج گئے۔ پانچ گھنٹے میری تقریر سنی اور حضرت اشکبار تھے۔جب حضرت کے آنسو بہنے لگے تب اختر نے دل میں یہ شعر پڑھا؎
وہ  چشم   ناز  بھی  نظر   آتی  ہے  آج    نم 
اَب  تیرا  کیا  خیال  ہے  اے  انتہائے  غم
آؤ   دیارِ   دار    سے   ہو   کر   گزر   چلیں
 سنتے  ہیں اِس طرف سے مسافت رہے  گی  کم
دیارِ دار کا مطلب
 دیارِ دار سے کیا مراد ہے؟ نفس کی بُری خواہشات کو پھانسی کا پھندا لگالو یعنی ان پر عمل نہ کرو۔ اگر مختصر راستے سے ولی اللہ بننا چاہتے ہو تو نفس کی بُری خواہشوں کو پھانسی دیناسیکھو۔ اس کا پھندا  گردن میں نظر نہیں آئے گا، لیکن اس کا قلب ہر وقت زخمِ حسرت اور خونِ آرزو کرکے سینے میں دریائے خون رکھتا ہے؎
کہ  گزر  کردند  از  دریائے  خوں
اللہ والے اللہ تعالیٰ تک دریائے خون کو عبور کرکے پہنچتے ہیں۔ جو اپنی حرام آرزو کے سامنے
Flag Counter