Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

15 - 34
ہے وہ بظاہر تو یہ سمجھتا ہے کہ میں بالکل اجڑ گیاہوں، میری تو کوئی خوشی پوری نہیں ہوئی۔ ارے! حرام خوشیوں کا پورا نہ ہونا ہی اچھا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کوئی مومن حرام خوشیوں میں بامراد ہو۔ جو حرام خوشیوں سے اپنے دل کو نامراد کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نافرمانی اور گناہوں کے چھوڑنے کا اور ہر وقت اللہ کے راستے کا غم اُٹھانے کا وہ انعام عطا فرمائے گا جو مولانا جلال الدین رومی صاحبِ قونیہ، شاہ خوارزم کا سگا نواسہ اور حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد اپنی مثنوی میں بیان فرماتے ہیں کہ؎
نفس خود راکش جہانے زندہ کن
اپنے نفس کی بُری خواہشوں کو ماردوتم سے ایک عالم زندہ ہوگا، وہ حیات عطا ہوگی جو ایک عالم کے لیے حیات بخش ہوگی۔ اللہ والا ایک ہوتا ہے لیکن ہزاروں کو ولی اللہ بنا کر جاتا ہے اور جو نفس کی پیروی کرتے ہیں وہ خود مُردہ رہتے ہیں، زندہ حقیقی کو ناراض کرنے کی و جہ سے ان کی حیات مثل مُردہ ہوتی ہے، وہ زندہ کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے، وہ زندگی کے لطف سے محروم کردیے جاتے ہیں،  کیوں کہ خالقِ زندگی کو ناراض کرکے حرام لذت کشید کرتے ہیں،یہ نمک حرام اور بے وفا حیاتِ اولیاء کیسے پاسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمت وطاقت دی ہے، یہ نہ سوچو کہ ہم ہیجڑے ہیں، مخنث ہیں یعنی بے ہمت ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ تم مخنث نہیں ہو مخنث جیسا کام کرتے ہو، ورنہ تم میں مردانگی اور طاقتِ تقویٰ موجود ہے۔ کوئی گناہ ایسا نہیں کہ چاہے سو برس سے کررہا ہو پھر بھی اسے نہ چھوڑ سکے۔ اگر طاقتِ تقویٰ کسی عمر میں ختم ہوجاتی تو پھر تقویٰ معاف ہوجاتا، لیکن مرتے دم تک تقویٰ فرض ہے:
وَ اعۡبُدۡ   رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُاللہ تعالیٰ کے ساتھ تقویٰ ، عبادت اور وفاداری موت تک فرض ہے۔
فِی الدُّنۡیَاحَسَنَۃً   کی تفسیر
اَب سنیے!رَبَّنَاۤاٰتِنَافِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً  کی تفسیر،رَبَّنَایعنی اے ہمارے پالنے
_____________________________________________
9؎  الحجر:99
Flag Counter