Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

7 - 34
بس دس روپے دے دیجیےیا میرے پاس گھڑی نہیں مجھے ایک گھڑی عطا فرمادیجیے اورابّا نہ کہے، تو اس مانگنے میں اور ابّا کہہ کرمانگنے میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی رَبَّنَا   کہلایا کہ کہو اے ہمارے پالنے والے ! جب آپ ہمارے پالنے والے ہیں تو ہماری ضروریاتِ کفالت بھی فضلاًواحساناً آپ ہی کے ذمہ ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ پر قرضہ نہیں ہے۔ اللہ سے دُعا مانگنا ، ان کے دربار میں محض درخواست پیش کرنا ہے، قانوناً ہمارا کوئی حق اللہ تعالیٰ پر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جو دعاجو درخواست قبول فرماتے ہیں، وہ محض اپنے فضل وکرم سے قبول فرماتے ہیں، دعاقبول فرمانا ان کے ذمہ واجب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ  فِی الۡاَرۡضِ  اِلَّا عَلَی اللہِ  رِزۡقُہَاہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔عَلٰیآتا ہے لزوم اور وجوب کے لیے، مگر مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ وجوب بھی احسانی اور تفضُّلی ہے، ضابطے کا نہیں ہے۔
تفسیر آیت رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا...الخ
اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایات کو جو ہم پر واجب فرمایا، تو اس کا نام وجوبِ تفضُّلی اور وجوبِ احسانی اس لیے ہے کہ استقامت اور ایمان پر موت اور جنت کا ملنا اللہ تعالیٰ کے ہبہ پر ہے، ہم اپنے اعمال کے زور سے اس کو نہیں پاسکتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سکھایا کہ یوں کہو رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا اے ہمارے پالنے والے! ہمارے دل کو ازاغت سے یعنی ٹیڑھا ہونے سے بچایئے ، کیوں کہ جب د ل ٹیڑھا ہوگا تو جسم کے ہر عضو سے گناہ شروع ہوجائیں گے، کیوں کہ دل بادشاہ ہے اور اعضا اس کے تابع ہیں۔ یہاں عدمِ ازاغت سے مراد استقامت ہے، کیوں کہ 
اَ لْاَشْیَاءُ  تُعْرَفُ بِاَضْدَادِھَا
ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے
دن کی پہچان رات سے ہوتی ہے اور رات کی پہچان دن سے ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ازاغت سے استقامت کی پہچان کرائی، کیوں کہ استقامت کی ضد ازاغت ہے، لہٰذا جب
_____________________________________________
3؎   ھود:6
Flag Counter