Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

18 - 34
صبر عطا فرما کہ ہم نیک اعمال پر قائم رہیں اور مصیبت میں آپ پر اعتراض نہ کریں کہ کیوں ہم کو یہ مصیبت ملی؟ مصیبت سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کا درجہ بلند کرتا ہے، اُن کو گناہوں سے پاک صاف کرتا ہے۔ ماں جب میل کچیل چھڑاتی ہے تو بچہ چلّاتا ہے مگر بعد میں چمک جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض بندوں کو مصیبت دے کر ان کی خطائیں معاف کرتے ہیں اور صبر کی برکت سے نسبت مع اللہ کا اعلیٰ مقام دے دیتے ہیں۔اور اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ  بھی دیجیے کہ نافرمانی کے تقاضوں کے وقت ہم صابر رہیں اور نافرمانی نہ کریں اور نافرمانی سے بچنے کا غم اٹھالیں۔ اس کانام اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ ہے ۔ اس دُعامیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی اقسامِ ثلاثہ مانگی ہیں یعنی:
۱)   اَلصَّبْرُ عَلَی الطَّاعَۃِ یعنی نیک اعمال پر قائم رہنا۔
۲)اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ مصیبت میں صابر رہنا۔
۳)اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ گناہوں سے بچنے کی تکلیف اٹھانا۔
حقیقی شکر کیا ہے؟
آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگتے ہیں وَاجْعَلْنِیْ شَکُوْرًا اور ہمیں شکرِ نعمت کی توفیق دیجیے، اور اس کی حقیقت تقویٰ ہے کہ ہم گناہ نہ کریں۔ اصل شکر گزار بندہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتا۔ اس کی دلیل سن لو! میں تصوف بلادلیل پیش نہیں کرتا۔ وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدۡرٍ اے صحابہ! اللہ نے جنگِ بدر میں تمہاری مدد کی ہے وَاَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ اورتم سخت کمزور تھے فَاتَّقُوا اللہَ پس تم تقویٰ سے رہا کرو اور ہم کو ناراض مت کرو لَعَلَّکُمۡ  تَشۡکُرُوۡنَ12؎ تا کہ تم حقیقی شکر گزاربن جاؤ۔ یہ تھوڑی ہے کہ منتخب بوٹی کھا کر کہہ دیا کہ یااللہ ! تیرا شکر ہے اور گناہ سے باز نہ آئے، اس طرح شکر کا حق ادا نہیں ہوا۔ زبان سے شکر کی سنت      تو ادا ہوئی، لیکن جب گناہ سے بچو ،نظر بچاؤ عَیْنًا، قَلْبًاوَقَالِبًا حسینوں ، نمکینوں سے        دوررہوتب سمجھ لو اب شکرِحقیقی نصیب ہوا۔ تو  وَاجْعَلْنِیْ شَکُوْرًا کے معنیٰ کیا ہیں؟اَیْ
_____________________________________________
12؎   اٰل عمرٰن:123
Flag Counter