Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

16 - 34
والے!یہ رَبَّنَا  کہنے کا مزہ پہلے لے لو، بتاؤ! جب بچہ ابّا کہتا ہے تو باپ کو مزہ آتا ہے یا نہیں؟ میرا بیٹا مولانا مظہر میاں جب ٹیلی فون پر کہتے ہیں ابّا السلام علیکم! تو مجھے دل میں مزہ آتا ہے، مگر مجھے اپنا ابّا بھی یاد آجاتا ہے کہ آج میراابّا ہوتا تو میں بھی ابّا کہتا، لیکن پھر کہتا ہوں یاربّا!یا مولیٰ! جب ابّا کی یاد ستائے تو کہو یاربّا! یامولیٰ! سب غم دورہوجائیں گے۔ اب  حَسَنَۃً  کی دس تفسیریں روح المعانی سے پیش کرتا ہوں:
رَبَّنَاۤ  اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً
یعنی اے ہمارے رب! دُنیا میں ہمیں بھلائیاں عطا فرما ئیے۔
 حَسَنَۃً سے کیا مراد ہے؟
۱) اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ  نیک بیوی۔
۲) اَلْاَوْلَادُ الْاَبْرَارُ نیک بچے۔ لائق اولاد وہی ہے جو ربّا کا بھی لائق ہو ابّا کا بھی لائق ہو۔ یہ نہیں کہ ابّاکی ٹانگ دباتا ہے، لیکن نہ نماز پڑھتا ہے، نہ روزہ رکھتا ہے ، یہ نالائق ہے۔ لائق وہی ہے جو اللہ کا بھی فرماں بردار ہو۔
۳) اَلْعِلْمُ وَالْعِبَادَۃُ دین کا علم اور اس پر عمل یعنی توفیقِ عبادت بھی حسنہ ہے، غیر عالم اس سے محرو م ہے۔ علمِ دین سیکھو چاہے اُردو کتاب سے مثلاً بہشتی زیور سے سیکھویا علماء سے پوچھ پوچھ کر حاصل کرو۔
۴)اَلْفَھْمُ فِیْ کِتَابِ اللہِ یعنی اَلْفِقْہُ فِی الدِّیْنِ  دین کی سمجھ۔
بعض میں علمِ دین تو ہے لیکن سمجھ نہیں ہے، اس کا صحیح استعمال نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہتھیار تو بہت عمدہ منگوالیا پر چلانا نہیں جانتا۔ علمِ دین کو صحیح موقع پر استعمال کرنا اور اللہ کے لیے استعمال کرناا ور اس کو پیٹ پالنے کا ذریعہ نہ بنانا یہ ہےتَفَقُّہْ فِی الدِّیْنْ۔
 تَفَقُّہْ فِی الدِّیْنْ کیایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پوچھا کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کھڑے ہو کر دیتے تھے یا بیٹھ کر؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتے وَتَرَکُوْکَ قَاۤئِمًا ؟قحط کی و جہ سے مدینہ میں غلہ کی شدید کمی تھی۔  بعض صحابہ کرام جن کا اسلام ابھی نیا تھا اور جن کی ابھی تربیت مکمل نہیں ہوئی تھی، غلہ کے اونٹوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خطبہ میں تنہا چھوڑ 
Flag Counter