Deobandi Books

دین پر استقامت کا راز

ہم نوٹ :

12 - 34
سے فوق ترہوتا ہے، کیوں کہ اس میں درد اور رس زیادہ ہوتا ہے، جیسے جہاز کے منزل تک جلد پہنچنے کی و جہ اس کی اسٹیم ہوتی ہے کمیت نہیں، اس کی کمیت تو ریل سے بھی کمتر ہے، تو اللہ تعالیٰ کے خاص اور مقبول بندوں کی صحبت سے محبت کی اسٹیم تیز کردی جاتی ہے، اس لیے ان کی دو رکعت دوسروں کی ایک لاکھ رکعات کے برابر ہوجاتی ہیں، لہٰذا جب اللہ والوں کے پاس بیٹھو تو کمیاتِ علمیہ کی نیت مت کرو، کیفیاتِ احسانیہ کی نیت کرو کہ ان کے سینے میں جو درد بھرادل ہے وہ درد ہمارے سینوں میں آجائے تاکہ ہمارا سجدہ  سجدہ ہوجائے، ہماری آہ  آہ ہوجائے، ہمارے آنسوآنسو ہوجائیں۔ مناجات کی لذت اور اللہ تعالیٰ پر فدا ہونے کی کیفیتِ قائمہ ودائمہ حاصل ہوجائے۔ ہر لمحۂ  حیات اپنے مالک پر فدا کرنے کی کیفیت قائمہ ودائمہ غیرفانیہ رہے۔ مطلب یہ کہ ہر سانس دل یہ چاہے کہ میں اپنے اللہ پر فدا رہوں،اور کیسے فدا رہوں؟ ہر وقت نفس کی بُری خواہش کا قتل کرتے رہو اور اس سے کہتے رہو کہ تیری ایک نہیں سنوں گا اور میرا یہ شعر پڑھو؎
نہیں ناخوش کریں گے ربّ کو اے دل تیرے کہنے سے
اگر یہ جان جاتی ہے  خوشی  سے جان  دے  دیں  گے
ہر لمحۂ  حیات اللہ تعالیٰ پر فدا ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جن اعمال سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہو ان اعمال سے لذتِ حرام مت کشید کرو۔ نالائق مت بنو’’نا‘‘ہٹاؤ اور اللہ کے لائق بن جاؤ۔ نیت یہ ہو کہ ہر وقت دل وجان سے اللہ پر فدا ہوتے رہیں، اگرچہ بظاہر کوئی عبادت نہ کررہے ہوں۔
ایک مرتبہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کچھ احباب آگئے۔ اس دن مولانا نے کوئی وظیفہ نہیں پڑھا، اپنے احباب کو اللہ تعالیٰ کی باتیں سناتے رہے۔ پھر یہ شعر پڑھا؎
بظاہر  ذاکر  و   شاغل   نہیں   ہے
زباں خاموش  دل غافل نہیں  ہے
مجھے  احباب  کی  خاطر  ہے  منظور
یہ کیا طاعات میں شامل  نہیں  ہے
اللہ والوں کا مقصود دین کی اشاعت اور دردِ دل منتقل کرنا ہوتا ہے۔
Flag Counter