انعاماتِ الٰہیہ
تقریر اوّل
تشکرعلاجِ تکبّر ہے
ارشاد فرمایا کہ مقرر جب اپنے سامنے ایک لاکھ کا مجمع دیکھتا ہے تو دل میں ایک نشہ آجاتا ہےتکبراور عجب کاغیرشعوری طورپر،غیر ارادی طورپر۔ اولیائے صدیقین بلکہ اولیائے صدیقین کے آخری درجے میں جو ہوتا ہے وہی عجب وکبر سے مکمل طورپر بچتا ہے اور اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟ مجمع دیکھ کر یہ سوچے کہ معلوم نہیں میرا یہ عمل قبول بھی ہے یا نہیں؟ قبولیت کی کوئی ضمانت اور گارنٹی نہیں۔ مرنے کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ یہ نہ فرمادیں کہ تمہاری تقریروں سے، تمہاری تحریروں سے،تمہارے اعمال سے ہم خوش اور راضی ہیں تب تک کسی عمل کی قبولیت کا اعتبار نہیں۔ اگر اللہ راضی نہیں ہے تو اس کا چوگنا اور آٹھ گنا مجمع واہ واہ کرے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ دیہاتی لوگ جب کسی چیز کے متعلق پوچھتے ہیں تو لاٹھی سے اس چیز پر ٹھونگا مارکر پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ یہ کیا بیچ رہے ہو؟ تو ایک دیہاتی نے ایک چوڑی بیچنے والے کے تھیلے پر لاٹھی سے ٹھونگا مارکر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو اس کی آدھی چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔ چوڑی والے نے کہا کہ کیا بتاؤں یہ کیا ہے؟ لاٹھی سے ایک ٹھونگا اور مارو تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ تو اپنے اعمال کے بارے میں صوفیا اور بزرگانِ دین یہ تصور کرتے ہیں کہ قیامت کے دن معلوم نہیں یہ قبول ہیں یا نہیں؟ ابھی قبولیت کی قطعی طورپر آپ کو کیسے اُمید ہوگئی؟ اس لیے فرمایا کہ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ1؎
_____________________________________________
1؎ النور:37