غیبت نکل جاتی ہے کہ فلاں آدمی ایسے ویسے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جن لوگوں سے تکلیف پہنچ جائے تو کچھ منہ سے نہ نکالے اور راضی رہے اللہ پر۔
مَنْ یَّنْظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَاءِ لَایُفْنِیْ اَیَّامَہٗ بِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِ وَیَقُوْلُ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ6؎
مَجَارِیْ جمع ہے مَجْرٰی کی یعنی جاری ہونے کی جگہ۔ مراد عرشِ اعظم ہے کہ اللہ کا فیصلہ عرشِ اعظم سے جاری ہوتا ہے۔ پس جس کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کےمجاری قضا سے ہوتا ہے، وہ لوگوں کے جھگڑوں میں اپنے وقت کو ضایع نہیں کرتا اور کہتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آج آپ لوگوں پر کوئی الزام نہیں،شیطان نے بھائیوں کے درمیان گڑبڑ کردی تھی۔ بھائیوں کی غلطی کو شیطان کے اوپر ڈال دیا، یعنی بھائیوں کی غلطی کو شیطان کی طرف منسوب کرکے ان کو بری کردیا تاکہ ندامت کے ساتھ وہ نہ کھائیں پئیں۔ اس کی نظر لوگوں پر نہیں ہوتی بلکہ اللہ پر ہوتی ہے کہ یہ سب وہاں سے آیا ہے۔ بھلا اُن کی مجال تھی کہ یہ میرے منہ کو آتے ؎
بھلا ان کا منہ تھا مرے منہ کو آتے
یہ دشمن ان ہی کے اُبھارے ہوئے ہیں
تو اس سے بڑا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ مجاری قضا پر اس کی نظر ہوتی ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ کو یہی منظور تھا، اس لیے یہ لوگوں سے جھگڑنے میں اپنا وقت ضایع نہیں کرتا۔ جانتا ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اگر وہ زیادتی کررہے ہیں تو اس کی سزا اللہ ان کو دے گا،یہ خود تو گناہ گار اور ظالم نہیں ہوگا۔
(مولانا منصور الحق صاحب نے ترجمہ فرمایا)
گناہ کی ترغیب دینے والا بھی مجرم ہے
ترجمہ کے بعد مولانا منصور الحق صاحب سے فرمایا کہ بیٹھیےابھی اور سنیے۔ یہ سن کر
_____________________________________________
6؎ بیان القراٰن: 95/1، یوسف (92)، ایج ایم سعید