پر ہوگیا تب تو میں اچھا ہوں، لیکن اگر خاتمہ خراب ہوگیا، نعوذ باللہ خاتمہ کفر پر ہوا تب تو کتّے،سور بھی مجھ سے افضل ہیں۔ جو شخص تکبر سے نجات چاہے یہ دو جملے روزانہ زبان سے کہے اور اتنی زور سے کہے کہ اپنا کان سنے، اتنی زور سے نہ کہے کہ دوسروں کے کان بھی سنیں،کیوں کہ دوسروں کو اپنی تواضع تھوڑی دکھانا ہے، اللہ سے تواضع کی اس جملہ سے بھیک مانگنا ہے۔
اگر کوئی باپ اپنے بچے کو ایک بہت عمدہ شیروانی بنوادے اور وہ بچہ اکڑرہا ہو کہ دیکھو میری شیروانی! باپ کا نام بھی نہ لے رہا ہو اور سب بھائیوں پر تبختر اور اپنی بڑائی جتارہا ہو، تو اس سے باپ ناراض ہوگا کہ ہم نے تم کو شیروانی اس لیے تھوڑی بنواکر دی تھی کہ تم بھائیوں پر اپنی فضیلت بیان کرو تم نے تو میرا نام بھی نہیں لیا اور میری عطا کو اپنا کمال سمجھا۔ اور وہی بیٹا کہے کہ واہ رے میرے ابا! میرے ابا کو خدا جزائے خیر دے، میرے ابا نے یہ مجھے عطا کی ہے۔ تو یہی نعمت ذریعۂ شکر ہوگئی اور باپ بھی خوش ہوگیا۔
پس ہر نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرو کہ اللہ نے یہ ہمیں بلااستحقاق محض اپنے کرم سے عطا فرمائی ہے، میں اس کا مستحق نہیں تھا۔ انسان کے کمالات کیا ہیں؟ سارے کمالات اللہ کے لیے ہیں اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ حمد کی چار تعریفیں ہوسکتی ہیں۔ اب منطق سن لیجیے۔ تعریف کی چار قسمیں ہیں:
۱)بندہ بندے کی تعریف کرے۔ ۲)بندہ اللہ کی تعریف کرے۔ ۳)اللہ بندے کی تعریف کرے۔۴)اللہ خود اپنی تعریف کرے۔ ان چار کے علاوہ کوئی پانچویں قسم نہیں ہے۔ میں دارالعلوم میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی پانچویں قسم ہو تو میرے سامنے پیش کرو۔ میں وہ جاہل پیر نہیں ہوں کہ مرعوب ہوجاؤں گا۔
مومن کے لیے مصیبت کے نافع ہونے کا منطقی استدلال
مفتی محمدحسن امرتسری رحمۃ اللہ علیہ پر معقول کا غلبہ تھا۔ خانقاہ میں قیام کے لیےتھانہ بھون آئے ہوئے تھے کہ گھر سے خط آیا کہ بیوی بچے سب بیمار ہیں۔ یہ بہت تشویش میں تھے، جاکر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت سارے گھر والے بیمار ہیں، تو حضرت نے فرمایا کہ مفتی صاحب! جب مومن کا عقیدہ مقدر پر ہے تو پھر اسے مکدر ہونے کی کیا ضرورت ہے؟