تکبر کا نقصان اور تواضع کا فائدہ
اور تکبر ایسی بُری بیماری ہے کہ اگر دل میں ایک ذرّے کے برابر، رائی کے برابر بھی ہوگا تو جنت تو کیا، جنت کی خوشبو بھی نہیں پاؤگے ۔اور تکبر غیرشعوری طورپر آجاتا ہے۔ اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو ایک بخاری پڑھانے والا دوسروں کو اپنے سامنے حقیر سمجھ سکتا ہے، اس لیے کہتا ہوں کہ اپنے کو سب مسلمانوں سے کمتر سمجھو فی الحال یعنی موجودہ حالت میں بھی ہم تمام مسلمانوں سے کمتر ہیں اگرچہ بخاری شریف پڑھاتے ہیں۔
اس لیےیہ جملہ روزانہ اللہ تعالیٰ سے کہو، اس کا معمول بنالو کہ یااللہ! میں تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور کافروں سے اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل کہ ابھی اپنا انجام نہیں معلوم۔تو اللہ ایسے بندے سے کتنا خوش ہوگا کہ باوجود صدہا ہنر اور خوبیوں کے اپنے کو بے قدرسمجھتا ہے۔ بے قدر کا خود کو بے قدر سمجھنا کوئی کمال نہیں۔ کمال یہ ہے کہ صدہا ہنر ہوتے ہوئے اللہ کے خوف سے خود کو بے قدر سمجھے۔ یہ خود کو بے قدر سمجھے گا، لیکن لوگ اس کو بے قدر نہیں سمجھیں گے۔ لوگ اور قدر کریں گے۔
مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ5؎ تواضع کے بعد لِلہْ لگا ہوا ہے کہ جو اللہ کے لیے تواضع کرے گا۔ لِلہْ یہاں کیوں لگایا؟ کیوں کہ بعض لوگ تواضع کرتے ہیں تاکہ میری تعریف ہو کہ بہت متواضع ہیں۔ یہ تواضع لِلہْ نہیں ہے لِلنَّفْسْ ہے۔ ایسی تواضع پر رفعت وبلندی کا وعدہ نہیں ہے، جو اللہ کے لیے تواضع کرے گا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اللہ اس کو بلندی دے گا۔ یہاں پر ارشاد فرمایا کہ یہ تو میری تقریر ہوگئی حالاں کہ میں آج کل تقریر نہیں کرتا۔ (اس کے بعد مولانا منصور الحق صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا)
ایک عجیب تعلیمِ فنائیت
ترجمہ کے بعد حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ اچھا ایک بات عرض کرتا ہوں جو سمجھ میں مشکل سے آئے گی لیکن کچھ لوگ سمجھ لیں گے۔ اُمید ہے کہ میں اس کو آسان کروں گا۔ حضرت تھانوی فرماتے ہیں:
_____________________________________________
5؎ مشکوٰۃ المصابیح: 434/2، باب الغضب والکبر، المکتبۃ القدیمیۃ