اِنَّ بَعْضَ الْمُغْتَرِّیْنَ مِنَ الصُّوْفِیَاءِوَالسَّالِکِیْنَ یُنْسِبُوْنَ
کَمَالَاتِھِمْ اِلٰی مُجَاھَدَاتِھِمْ فَھٰذَا عَیْنُ الْکُفْرَانِ
حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بہت سے صوفیا جو دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں وہ اپنے کمالات کو اپنے مجاہدات کا ثمرہ سمجھتے ہیں اور یہ عین ناشکری ہے۔ اب اس میں تو بڑے بڑے لوگ مبتلا ہیں کہ صاحب ہم نے بڑے پاپڑ بیلے،اتنے مجاہدات کیے تب یہ نعمت ہم کو ملی ہے، لیکن یہ سوچنا چاہیے کہ آپ نے مجاہدات تو کیے، لیکن ان مجاہدات کے ساتھ بعض بے اصولیاں ایسی زہرِقاتل ہیں کہ جو سب کو کراس (Cross) کردیں، اس لیے مجاہدہ تو ہے لیکن اپنے اعمال کو بھی دیکھیے! اس لیے اپنے کسی کمال کو اپنے مجاہدات کا ثمرہ نہیں سمجھنا چاہیے،بلکہ ان کی عطا اور ان کا انعام سمجھے کہ ان کے فضل کا سبب ان کا فضل ہے، ان کی رحمت کا سبب ان کی رحمت ہے، ان کے کرم کا سبب ان کا کرم ہے، میرا مجاہدہ نہیں ورنہ میرے اعمال ایسے ہیں جو سارے مجاہدات پر پانی پھیردیتے ہیں اور بجائے ثواب کے سزا کا مستحق بناتے ہیں۔ اب ہے کسی کا منہ جو اپنے مجاہدات کو اہمیت دے، جبکہ اس کا بعض عمل اس کو مجرم اور سزا کے قابل بنادیتا ہے، لہٰذا اللہ کے کسی انعام کو اپنے بڑے سے بڑے مجاہدہ کا ثمرہ نہ سمجھوبلکہ ان کی عطا کا سبب ان کی عطا ہے، ان کے کرم کا سبب ان کا کرم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے بھی کہو کہ اے اللہ! مجھ پر جو آپ کی عنایات ہیں ان کا سبب آپ کی عنایات ہیں۔ مجھ پر جو آپ کا فضل ہے اس کا سبب آپ کا فضل ہے۔ میرے مجاہدے اس کا سبب نہیں ہوسکتے۔
بتائیے باریک بات ہے کہ نہیں؟ علماء نے عرض کیا کہ بہت باریک بات ہے اور ہمارے لیے سبق ہے۔ فرمایا کہ یہ سبق بھی آج بلاارادہ دے دیا، کچھ سوچ کر نہیں بیٹھا تھا۔ کوئی مضمون بیان کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ بس اس کا ترجمہ کردیجیے۔
(مولانا منصور الحق صاحب نے اس کا ترجمہ فرمایا)
رضا بالقضاء موجبِ اطمینان ہے
ترجمہ کے بعد ارشاد فرمایا کہ کبھی کسی کو کسی سے تکلیف پہنچ جاتی ہے تو منہ سے