تو میگنٹ کیا کرے گا،دور رہنے سے اس کے دائرۂ کشش میں نہ آئیں گے اور میگنٹ کچھ نہ کرسکے گا۔ اٹھنی میگنٹ کے سامنے رہے گی تو ناچتی رہے گی، میگنٹ کی طرف کھنچتی رہے گی اور جب اس کے محاذات سے ہٹ جائے گی تو اس کے اثر سے بچ جائے گی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے میگنٹ کے محاذات سے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھگادیا، اس لیے بھاگنا فرض ہے، چاہے بھاگتے ہوئے دُعا کرتے رہو، لیکن وہاں دُعا کے لیے بھی رکنا جائز نہیں۔ قدم فرار کے مضبوط رہیں۔ اگر قدم فرار کے مضبوط نہ ہوئے تو میگنٹ غالب ہوجائے گا۔ فرار اختیار کرنا واجب ہے۔ جو لوگ گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں ان کا فرار کمزور ہوتا ہے۔ اگر ہمت کرکے بھاگ جائیں تو میگنٹ کیا کرے گا، لہٰذا اس کو یاد رکھو کہ گناہ کے موقع سے فرار واجب ہے، اس وقت نہ بھاگنا اور آنسو بہانا، رونا دھونا سب بے کار ہوجائے گا، اس وقت لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ بھی کام نہیں کرے گا۔ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ کا حکم نصِ قرآن ہے، جو نصِ قرآن پر عمل نہ کرے اس کا مبتلا ہوجانا کیا بعید ہے!یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ فرمایا کہ اب ترجمہ کردو۔
(مولانا منصور الحق صاحب نے ترجمہ فرمایا)
بس اب دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور میرے متعلقین کو اور آپ کو اور آپ کے متعلقین کو قیامت تک نسلاً بعدنسلٍ اولیائے صدیقین کا مقام عطا فرمادے،یعنی دنیا ہی میں ہمارا ایمان ایسا ہوجائے جیسے دوزخ اور جنت کو ہم دیکھ رہے ہیں۔اللہ ہر گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دونوں کام یعنی نیک کام کرنے کی اور بُرائی چھوڑنے کی توفیق دے کیوں کہ جو نیک کام کرے اور بُرائی نہ چھوڑے تو وہ کیسے ولی اللہ ہوگا؟ اللہ مجھ کو بھی توفیق دے کہ اختر ہر سانس اللہ پر فدا کرے اور ایک سانس بھی ناراض نہ کرے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ
بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ