روتے ہوئے دیکھتا ہے اس دن اور زیادہ گناہ کراتا ہے،کہتا ہے آج تو بہت روچکے، پچھلے پاپ سب دھل گئے، پچھلا حساب صاف ہوگیا، چلو آج نیا بازار لگائیں۔جب گناہ کے اسباب پیدا ہوجائیں تو یہ موقعِ فرار ہے، یہاں پر فرار واجب ہے۔
فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ8؎
اَیْ فَفِرُّوْۤ ا عَمَّا سِوَی اللہِ اِلَی اللہِ9؎
غیر اللہ سے اس وقت بھاگنا فرض ہے، وہاں بیٹھ کر اس وقت دُعا مانگنا قرآن کی روشنی میں جائز نہیں ہے۔ جہاں ہر طرف میگنٹ لگے ہوں وہاں اٹھنی بیٹھ کر دُعا کرے کہ یا اللہ! میں نہ کھنچوں تو دُعا مانگنے کے باوجود میگنٹ کھینچ لے گا۔ پہلے بھاگو، بھاگنے کا حکم بھی تو اللہ ہی کا ہے کہ نامناسب موقع سے بھاگو، وہاں سے بھاگنا عبادت ہے، بھاگنا فرض ہے، بھاگنا مرضیٔ الٰہی ہے، منشائے الٰہی ہے کہ تیزی سے بھاگو ورنہ حسن کے میگنٹ تمہیں کھینچ لیں گے۔ میگنٹ بھی تو اللہ ہی کا ہے، انہوں نے حسن کے میگنٹ لگارکھے ہیں اور بھاگنے کا حکم بھی وہی دے رہے ہیں، لہٰذا ان کے حکم پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ پس جہاں موقعِ فرار ہو وہاں فرار واجب ہے، قرار واجب نہیں ہے، خواہ بصورتِ دعا ہو۔ فرار کے وقت بھاگتے ہوئے جو کچھ کہہ سکو کہ یااللہ! مدد فرما، یہ صحیح ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھاگے تھے۔ بھاگنے سے تالے ٹوٹے ہیں، اللہ نے مدد کی اور بھاگنے کا انعام مل گیا،تالے خود بخود کھل گئے۔ پس جو انبیاء علیہم السلام کا عمل ہے اس کی نقل اُمت پر واجب ہے۔ یہ سبق بہت ضروری ہے۔ آج ضروری ضروری سبق دیے گئے ہیں۔ (حضرت والا نے مولانا منصور صاحب سے فرمایا کہ اس کو بھی بیان کردیجیے۔ مولانا نے انگریزی میں ترجمہ فرمایا۔)
پھر فرمایا کہ حسن میں بھی کشش ہے اور عشق میں بھی کشش ہے۔ دونوں پاس رہیں گے تو بچ نہیں سکتے، ایک دوسرے سے لپٹ جائیں گے، اس لیے فرار واجب ہے کہ محاذات سے الگ ہوجاؤ تو میگنٹ کا تعلق ختم ہوجائے گا۔ جب آمنے سامنے نہ رہیں گے، دور رہیں گے
_____________________________________________
8؎ الذّٰریٰت :50
9؎ روح المعانی: 25/27، ذکرہ فی اشارات سورۃ الذّٰریٰت