قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا4؎
لَنَا کا لام یہاں نفع کے لیے ہے۔ مومن کو جو مصیبت پہنچتی ہے تو اس میں مومن ہی کا نفع ہے۔ اس کے بعد حکیم الامت نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ چوں کہ آپ منطقی آدمی ہیں، اس لیے منطق سے سمجھاتا ہوں کہ مومن کو جو تکلیف اللہ دیتا ہے، اس میں سراسر مومن کا ہی فائدہ ہے۔مومن کو جو تکلیف یا بلا اللہ کی طرف سے پہنچتی ہے اس میں صرف چار صورتیں ہیں۔ چیلنج کرتا ہوں کہ پانچویں کوئی صورت نہیں ہے:
۱) مومن کو تکلیف دے کر اللہ سو فیصد فائدہ اُٹھالے،یہ ناممکن ہے، کیوں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ بندوں کا محتاج ہے اور چوں کہ اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے لہٰذا یہ صورت محال ہے۔
۲) دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ سو فیصد نفع نہ لے، پچاس فیصد لے یعنی ففٹی ففٹی کرلے کہ پچاس فیصد بندے کو دے دے، پچاس فیصد خود لے لے۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ اس میں بھی اللہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے اور اللہ کسی کا محتاج نہیں، نہ کم نہ زیادہ، ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔
۳) تیسری شکل یہ ہے کہ نہ بندے کا فائدہ ہو نہ اللہ کا، جس کو چاہا کھانسی دے دی، جس کو چاہا بخار دے دیا، کسی کو صدمہ وغم دے دیا، کسی کا ایکسیڈنٹ کرادیا جس میں کوئی فائدہ اور مقصد نہیں۔ تو بے فائدہ کام کرنا، بے مقصد کام کرنا، فضول اور لغو کام کرنا یہ اللہ کی عظمت کے خلاف ہے۔ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔
۴) اب صرف چوتھی شکل باقی ہے کہ ہر مصیبت اور تکلیف میں سو فیصد مومن ہی کا فائدہ ہے۔ قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَامیں لام نفع کے لیے ہے، ورنہ علیٰ آتا جو ضرر کے لیے آتا ہے۔
تویہ کہتا ہوں کہ ہر نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرو، ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرو، تشکر کی کیفیت غالب رہے تو تکبر پاس نہیں آئے گا۔ تکبر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر تشکر غالب ہو، کیوں کہ تشکر سببِ قرب ہے، شکر کرنے سے قربِ الٰہی بڑھتا ہے اور تکبر سے بُعد اور دوری ہوتی ہے اور دوری اور حضوری میں تضاد ہے اور اجتماع ضدین محال ہے۔
_____________________________________________
4؎ التوبۃ:51