Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

73 - 89
ان کا مقابلہ کرتے اور جب وہ باز نہ آتے تو مناظرے کو ترکش کے آخری تیرکے طور پر استعمال کرتے تھے۔
امام المتکلمین شیخ اہل السنة ابو الحسن الاشعری کا حال حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی تحریر کرکے تبصرہ فرماتے ہیں:
"امام ابوالحسن کو مناظرہ اور بحث و استدلال کا پہلے سے ملکہ تھا اور یہ ان کا فطری ذوق اور خداداد صلاحیت تھی، مذہب حق کی حمایت کے جذبہ اور تائید الہٰی نے ان کی ان قوتوں اور صلاحیتوں کو اور جلا دیدی وہ اپنے زمانے کے عقلی سطح سے بلند تھے اور عقلیات وعلم کلام میں مجتہدانہ دماغ رکھتے تھے"
معتزلہ کے سوالات واعتراضات کا جواب وہ اس آسانی سے دیتے تھے جیسے کوئی کہنہ مشق استاذ اور ماہر فن، مبتدی طالب علموں کے سوالات کا جواب دیتاہے اور ان کو خاموش کر دیتا ہے ان کے ایک شاگرد ابوعبداللہ بن خفیف اپنی پہلی ملاقات اور ایک مجلس کی کیفیت بیان کرتے ہیں:
"میں شیراز سے بصرہ آیا مجھے ابوالحسن اشعری کی زیارت کا شوق تھا لوگوں نے مجھے ان کا پتہ دیا، میں آیا تو وہ ایک مجلس مناظرہ میں تھے وہاں معتزلہ کی ایک جماعت تھی اور وہ لوگ گفتگو کر رہے تھے جب وہ خاموش ہوئے اور انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو ابوالحسن اشعری  نے گفتگو شروع کی انہوں نے ایک ایک سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے یہ کہا تھا اور اس کا جواب یہ ہے تم نے یہ اعتراض کیا تھااور اس کا جواب اس طرح ہے، یہاں تک کہ انہوں نے سب کا جواب دے دیا جب وہ مجلس سے اٹھے تو میں ان کے پیچھے پیچھے چلا اور ان کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگا ، انہوں نے فرمایا کہ تم کیا دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ دیکھتا ہوں کہ آپ کی کتنی زبانیں ہیں کتنے کان اور کتنی آنکھیں ہیں( کہ آپ سب کی سنتے ، سب کی سمجھتے، اور سب کا جواب دیتے ہیں)وہ یہ سن کر ہنس دئیے۔(١٠)
ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کی سب باتیں تو سمجھ میں آئی مگر یہ نہ سمجھ سکا کہ آپ ابتداً خاموش کیوں رہتے ہیں اور معتزلہ کو گفتگو کا موقع کیوں دیتے ہیں آپ کی شان تو یہ ہے کہ آپ ہی گفتگو کریں اور اعتراضات کو خود رفع کردیں۔
	انہوں نے فرمایا کہ میں ان مسائل اور اقوال کو اپنی زبان سے ادا کرنا جائز نہیں سمجھتا البتہ یہ جب کسی کے زبان سے نکل جائیں، تو پھر ان کا جواب دینا اور ان اقوال کی تردید اہل حق کا فرض ہوجاتاہے (١١)
علما دیوبند (کثراللہ سوادھم)میں حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی کے اہل بدعت سے مناظرے کسی پر مخفی نہیں ہے موضوع کے مناسبت سے ان کے دو مناظروں کی روئیداد نقل کیے دیتاہوں ،جن میں ایک مناظرہ سنبھل انڈیا میں فرقہ بریلویہ سے ہو ا، جب کہ دوسرا مناظرہ آریہ سماج والوں سے بریلی میں ہوا۔
ان دونوں مناظروں کے احوال اگر چہ تھوڑے طویل ہے لیکن انشااللہ فائدے سے خالی نہیں۔

Flag Counter