Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

27 - 89
ڈاکٹر ریحان اختر*

قرآنِ کریم جنگ وامن کا عظیم ترین علمبردار ہے

اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں ہمیں صرف ایک نعرہ نظر آتا ہے وہ ہے امن کا نعرہ ۔ اسلام میں تلوار کے استعمال کو محدود کردیا گیا ہے۔ اس کے استعمال کو بالکل منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔ تلوار منطق یا انصاف کی جگہ نہیں لے سکتی لیکن بعض دفعہ اس کا استعمال ناگزیر صورت بن جاتی ہے، جیسا کہ کتب سیر میں بہت سارے واقعات موجود ہیں۔ اسلامی جنگوں کی ترقی اور اسلام کی ترقی کاواحد ذریعہ رہا کہ وہ صرف حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت تھی اور بلاشبہ فوجی وعسکری کامیابی اسلام کے مقدر کی تکمیل میں ایک قومی عنصر کی حیثیت رکھتاہے لیکن قرآنی تعلیمات سے ہٹ کرکوئی بھی عمل اہل اسلام کا نہیں رہا جو اصول قرآن نے مرتب کیے اسکے مطابق عمل ہوا۔جیسا کہ قرآن کریم نے اسلام کے جنگ وامن اصولوں کو مختلف سورتوں اور آیات میں بیان کیے ہیں ہم ان اصولوں پر یہاں اختصار کیساتھ روشنی ڈالیں گے۔
(١)	اسلام میں ہوس ملک گیری کے لیے جنگ جائز ہے۔ سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ محض فتوحات اور ہوس ملک گیری کے لیے جنگ جائزنہیں۔ صرف دفاعی اغراض اور ظالموں کے خلاف جنگ جائز ہے، قرآن میں مسلمانوں کو جب مدینہ پہنچنے کے بعد پہلی بار اپنے دشمنوں کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی تو اس میں اس اصول کی وضاحت کردی گئی۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرoالَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ ِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ ۔ ١	
]وہ لوگ یعنی مسلمان جن سے جنگ کی گئی اب ان کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے، یہ اسلئے کہ ان پرظلم کیاگیا اور اللہ ان کی نصرت پر پوری طرح قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علاقوں سے ناحق نکالے گئے، صرف اس لیے نکالے گئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔[
اس آیت کی تشریح کی ضرورت نہیں، بات صاف ہے کہ ان کو اس لیے جنگ کی اجازت دی جارہی ہے 
______________________________
    *شعبہ دینیات (سنی)' علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
Flag Counter