سلسلہ خطبات جمعہ شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ انوار الحق صاحب
ضبط و ترتیب مولانا حافظ سلمان الحق حقانی
اسرا و معراجِ رسولً
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم' بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اللہ جل جلالہ سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَیٰ الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ]بنی اسرائیل:١[
''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ (محمد) کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد بیت المقدس تک جس کے آس پاس (ملک شام ہے) ہم نے دینی اور دنیوی برکات رکھے ہیں(تعجب انگیز انداز میں اس واسطے) لے گئے تاکہ ہم ان کواپنے کچھ عجائبات قدرت دکھلاویں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے سننے اور دیکھنے والے ہیں۔''
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک :
محترم سامعین! آپ کے سامنے میں نے جس آیت مبارکہ کی تلاوت کی' اس میں واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے ' واقعہ معراج قرآن کریم میں اجمالاًجبکہ کتب سیرت وتاریخ 'احادیث نبوی ا اور سیرت النبی ا کے ذخائر اس واقعہ سے مفصل تحقیقی اوردلائل سے بھرے پڑے ہیں' معراج کے واقعات تیس کے قریب صحابہ سے منقول ہیں۔یہی معمول خطباء حضرات کا ہے کہ وہ شب معراج میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے اپنے انداز میں وقتاً فوقتاً بیان فرماتے رہتے ہیں' یادر ہے کہ اسے بعض لیلة الاسری کے نام سے بھی ذکر کرتے ہیں' وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک جو سفر ہوا اسے اسریٰ کہتے ہیں جس کا کلام پاک کی اس آیت میں بھی ذکرہے۔عام طورپر اسریٰ رات کے سفر کو کہتے ہیں اور یہ پورا عجیب وغریب واقعہ بھی رات میں ہوا۔
سفرآسمانوں کا :
بہرحال پھر مسجد اقصیٰ کے بعد آنحضرت کا یہ سفر آسمانوں کی طرف شروع ہوا' یہاں سے آسمانوں تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں' میں آپ کو احادیث نبوی ا کی روشنی میں یہ بتلانے کی کوشش کروں گا کہ اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ سفر کیسے شروع ہوا ؟ آپ کو اس مبارک سفر میں رب العزت نے کیا کیا عجائبات قدرت نے دکھائے؟ اور کس غرض سے آپ ا آسمانوں پر سے گزر کر عرش بریں تک پہونچے؟ ان تمام باتوں کا جواب احادیث کی کتب