Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

3 - 89
نقش آغاز 			    س	        راشد الحق سمیع حقانی

امید و یاس اور سازشوں کے سائے میں
حکومت اور طالبان مذاکرات

	حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان جاری امن وامان قائم رکھنے کیلئے مذاکرات نے حساس نوعیت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ خصوصاً حکومتی نقطہ نظر میں کئی بار مسلسل تبدیلیوں اور پیچیدگیوں کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ کمزور ہوتا گیا۔ وزیراعظم کی مولاناسمیع الحق صاحب کو مذاکراتی عمل میں پیش رفت کی دعوت اور پھر یو ٹرن لے کر سرد مہری سمیت مولانا مدظلہ کے مذاکرات سے علیحدگی وہ سارے عوامل تھے جس نے مذاکراتی عمل کو مزید پیچھے دھکیل دیاتھا مگر پاکستانی عوام کی پرزور مطالبے پر ایک بار پھر وزیراعظم نے مجبور ہوکر اسمبلی کے فلور پر مذاکراتی عمل کے باقاعدہ آغاز کیااور جناب عرفان صدیقی ‘جناب رحیم اللہ یوسفزئی‘ میجر عامراور رستم شاہ مہمند پر مشتمل کمیٹی کو مذاکرات کا اختیار دیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف طالبان نے مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک سیاسی کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ حضرت مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ قرار دئیے گئے ‘دیگر ارکان میں جماعت اسلامی کے جناب پروفیسر ابراہیم ‘ تحریک انصاف پاکستان کے جناب عمران خان‘لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز صاحب او رجمعیۃ علماء اسلام کے مفتی کفایت اللہ شامل تھے لیکن عمران خان اورمفتی کفایت اللہ نے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اس نازک موڑ پر سب کو تنہا چھوڑ دیا حالانکہ یہ جماعتیں کل تک مذاکرات کا راگ آلاپ رہی تھیںلیکن حکومت اور تحریک طالبان کی طرف سے مرکزی کردار مولانا سمیع الحق کو حوالہ کردینے کی بناء پر انہوں نے راہ فرار اختیار کی اور مذاکرات کی بساط لپیٹنے کی کوشش کیں لیکن طالبان نے سیاسی بصیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا سمیع الحق صاحب اور پروفیسر ابراہیم صاحب وغیرہ کی کمیٹی کو حتمی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ان سے مذاکرات کرنے کا کہا۔ حکومتی اور رابطہ کار (طالبان کمیٹی) کے درمیان پہلے رسمی اجلاس کے بعد طالبان کمیٹی کے اہم ارکان پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ میرانشاہ تشریف لے گئے ‘ جہاں انہوں نے امریکی ڈرون حملوں سے بچنے کے لئے خفیہ مقام پر طالبان کی سیاسی کمیٹی سے ملاقات کی اور طالبان سے ان کا نقطہ نظر معلوم کرنے اور ان کے مطالبات سے آگاہی حاصل کی لیکن امریکہ اس سارے عمل کی کامیابی کو دیکھ کر بوکھلا گیااور حسب سابق ڈرون حملے کرنے کی کوشش کی لیکن کمیٹی کے ارکان نے باربار جگہ بدلنے اور راز داری 
Flag Counter