Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

68 - 89
اترے اسی طرح انسان ہدایت اور ایمان کی تلاش میں قرآن نہ پڑھتا ہو بلکہ نئی سے نئی معلومات کے حصول یا پڑھ پڑھ کے لوگوں پر دم کرنے اور ان سے مال کمانے کاکام لیتا رہے تو قرآن مجید سے ہدایت وایمان تو نہ ملے گا، البتہ اضافی فائدے ضرور حاصل ہو جائیں گے جو کہ صرف اورصرف خسارے کا سودا ہے اور جہنم کاراستہ۔لیکن اگر اصل مقصد ایمان وہدایت قرآن سے حاصل کرے اور پھر اگر بعض جائز اور اضافی فوائد بھی حاصل کرلے تو اس میں حرج کی بات نہ ہوگی۔بعینہ اگر کوئی شخص کائنات پر غور وفکر کااصل مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت کی زندگی پرایمان بناتا ہے۔اورپھراس غوروفکر سے بعض اضافی فوائد بھی حاصل کرلیتا ہے تواس میں کوئی حرج نہ ہوگا،اگرسرے سے بنیادی مقصد ہی بدل جائے تو کائنات پر غوروفکرکا عنوان مشترکہ ہونے کے باوجود ایک جنت کی راہ ہوگی اور دوسری جہنم کی راہ۔اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ کائنات پر غوروفکر قرآن اورجدیدسائنس کا مشترکہ موضوع ہونے کے باوجوداپنے مقاصد وماٰخذ علم کے اعتبارسے متضاد علوم ہیں۔اس طرح اسلامی سائنس ایک ایسی چیز ہے جیسے'' اسلامی عیسائیت'' اور اسلام اور سائنس میں مشترکہ نکات کی تلاش ایک ایسا عمل ہے جیسے اسلام اور عیسائیت میں جزوی مشترکہ نکات ڈھونڈ کر اصل اور بنیادی مباحث ایمانیات اور مقاصد حیات سے صرف نظر کیاجائے اوجزوی مشابہتوں کو نہ صرف تلاش کیاجائے بلکہ ان کی بنیاد پر کل میںاتفاق بھی مانا جائے۔الغرض ہم سائنس کو اس وقت تک قابل مذمت سمجھیں گے ،جب اس کا مقصد موجوداتِ کائنات کو ان کے اصل مقاصد( رجوع الی اللہ و تذکیر آخرت) سے پھیر کر محض دنیوی مفادات حاصل کرنا رہ جائے ۔البتہ اصل مقاصد کے حصول اور اللہ پر ایما ن کے بعد سائنس سے دنیوی تصرفات حاصل کرنے کی کوشش غلط نہ ہوگی۔یہ ٹھیک ہے کہ قرآن بھی کائنات پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور جدید سائنس بھی یہی عنوان رکھتی ہے مگر قرآن کی دعوت ِفکر خالقِ کائنات کی طرف متوجہ کرنے اور بعث بعد الموت کو یاد کرنے کے لئے ہے جبکہ سائنس کا مقصدِفکر تسخیر کائنات اور تصرف وتمتع فی الارض اور انسان کو کائنات کا حاکم وبادشاہ بنانے کے لئے ہے۔
کیا سائنس اللہ تک پہنچنے کی سیڑھی ہے ؟
	اس ساری تفصیل کے بعد بھی کچھ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ ہم جدید سائنس کو خدا تک پہنچنے اور آخرت کی یاد کو زندہ کرنے کیلئے سیڑھی کے طور پر استعمال کریں گے تو یاد رکھنا چاہئے کہ اولاً: اگر انسانی علم وعقل کوئی ایسی سیڑھی بنا سکنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتی جو آسمانی خزانوں تک پہنچ پاتی تو رب ذوالجلال والاکرام کو آسمانوں سے وحی اتارنے کی ضرورت نہ ہوتی جیسا کہ مغرب کے سائنس دان یہی سمجھتے ہیں کہ انسانی علم و عقل ہی حقائق تک پہنچنے کا حتمی ذریعہ ہے تو وہ وحی کے نور کو اپنے لئے غیر ضروری جانتے ہیں۔ثانیاً: جہاں جہاں سائنسی علمیت (نیچرل اور سوشل سائنس) کا غلبہ ہوتا چلاجاتا ہے ،وہاں انسانی انفرادیت ، معاشرت اور ریاست ، وحی 
Flag Counter