Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

55 - 89
دنیا میں اس کی مثال کوئی بھی پیش نہیں کر سکتا ہے علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں :
اخواننا ولو لا عنایة اخواننا علماء الہند بعلوم الحدیث فی صفدا العصر یقضی علیھا بالزوال من امصارا الشرق فقد ضعفت فی مصر والشام والحجاز منذ القرون 
''ہمارے ہندوستانی بھائیوں میں جو علماء ہیں اگر علوم حدیث کے ساتھ ان کی اس زمانہ میں توجہ نہ ہوتی تو مشرقی ممالک سے علم ختم ہو چکا ہوتا کیونکہ مصر،شام ،عراق، حجاز میں دسویں صدی ہجری سے یہ علم ضعف کا شکار ہو چکا تھا'' (مقدمہ کنوز مفتاع السنة )
صاحب کوثر الجاری لکھتے ہیں :  الحمد للہ پھر ہندوستان علم حدیث و دیگر علوم دینیہ شرعیہ کا مرکز بنا رہا جہاں ہزاروں علماء محدثین ، مفکرین ، مفسرین فقہاء پید اہوئے حتیٰ کہ بعض مورخین تاریخ نے یہ لکھا کہ ان القرآن نزل فی الحجاز و قریٔ فی المصروفہم فی الہند فصار الہند مرکز العلوم الدینیة کلھا با سر ھا ولم یوجد فی الا کوان مصر و لا بلدة یساویھا فی الرجال ولا فی غیر ھا من الا شیاء والا قدار العلمیة ۔ ص ١٣
حضرت شیخ الہند  کا طرزِدرس ترمذی:
جناب عبدالرشید ارشد صاحب بیس بڑے مسلمان میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ الہند مسائل مختلف فیہا میںائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ بلکہ دیگر مجتہدین کے مذاہب بھی بیان فرماتے اور مختصر طور سے دلائل بھی نقل کرتے لیکن جب امام ابو حنیفہ  کا نمبر آتا تو مولانا کے قلب میں انشراح، چہرہ پر بشاشت ، تقریر میں روانی ، لہجہ میں جوش پیدا ہو جاتا ،دلیل پر دلیل ، شاہد پر شاہد ، قرینہ پر قرینہ بیان کرتے چلے جاتے تقریر رکتی ہی نہ تھی اور اس خوبی سے مذہب امام اعظم  کو ترجیح دیتے تھے کہ سلیم الطبع اور منصف المزاج لوٹ جاتے تھے دور دور کی مختلف المضامین احادیث جن کی طرف کبھی خیال بھی نہ جاتا تھا پیش کرکے اس طرح مدعا بیان ثابت فرماتے کہ بات دل میں اتر جاتی تھی اور سامعین کا دل گواہی دیتا اور آنکھوں سے نظر آجاتا تھا کہ یہی جانب حق ہے ۔ 
حضرت شیخ الہند  کا درس ترمذی مناظر احسن گیلانی کی نظر میں :
مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب لکھتے ہیں :''دورے کے اندر محسوس ہوتا تھا کہ ان کی انگلیاں تسبیح کے دانوں کو پھیرنے میں مصروف ہیں طالب علم حدیث پڑھتا جاتا اور آپ سنتے جاتے دورہ میں ترجمہ بزبان اردو کا قصہ ختم ہو جاتا تھا اس لئے کہ مشکوٰة میں حدیث کا متن طلباء پڑھ چکے تھے کہا جاتا ہے کہ دورہ میں شریک ہونے والے طلباء ترجمہ کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتے تھے اسی لئے بطور ''سرد '' کے ایک حدیث کے بعد دوسری حدیث دوسری کے بعد تیسری حدیث گزرتی چلی جاتی لیکن کبھی کبھی ہاں چلئے کے سوا حضرت شیخ الہند  کی زبان مبارک پر بمشکل کوئی لفظ آتا گویا قطعی ایک خاموش درس تھا جب کوئی ایسی حدیث آجاتی جو بظاہر مفہوم کے لحاظ سے
Flag Counter