Deobandi Books

ماہنامہ الحق جنوری فروری 2014ء

امعہ دا

23 - 89
بھر دیا جائے تاکہ انوارت الہٰیہ برداشت کرنے کی قوت پیدا ہو آپ نے فرمایا ''ثم تیت بدابہ یہ ایک قسم کا جانور تھا جسے براق کہتے تھے' یہ تمام انبیاء کرام کی سواری کیلئے مقرر تھا' علمائے کرام نے لکھا ہے کہ ہر نبی کے مقام ومرتبہ کے مطابق اس کا براق بھی ہے جیسے ہر پیغمبر کا الگ الگ حوض ہے ' پس یہ براق آپ کے ساتھ خاص تھا۔
معزز دوستو! حضرت جبرائیل نے رکاب جبکہ حضرت میکائیل  نے لگام تھام کر آپ کو سوار کیا' سیرت کے کتب میں ہے کہ سوار ہوتے وقت براق نے کچھ شوخی کی مگر حضرت جبرئیل نے فرمایا براق شوخی نہ کر۔ آج تک آنحضرت ا   سے مبارک اور افضل ترین شخصیت نے تم پر سواری نہیں کی'یہ سنکر براق شرم و ہیبت کی وجہ سے پسینہ سے شرابور ہوگیا۔
دوران ِ سفر کے عجائب :
	 بیت المقدس جاتے وقت آپ نے عجائب وغرائب دیکھے مثلاً طبرانی اور بیہقی کے روایت میں ہے کہ جاتے وقت دوران سفر دائیں طرف سے آوازآئی''یا محمد علی رسلک'' یا محمد ذرا ٹھہر 'میں آپ سے کچھ پوچھتا ہوں۔تاہم میں نے توجہ نہ دی پھر آگے چل کر بائیں طرف سے آوازئی آئی : ''یا محمد علی رسلک'' اے محمدذرا ٹھہر جائیے۔آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں میں اسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھا تو سامنے کی طرف سے ایک بڑھیا زینت وسنگار کئے ہوئے آکر بولی ''یا محمد علی رسلک'' میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں میں نے اسے بھی نظرانداز کردیا اور آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچا اور براق کو اسی حلقہ سے باندھ دیا جس کے ساتھ اور انبیاء کرام اپنی اپنی سواری باندھ دیا کرتے تھے' میں نے مسجد میں داخل ہو کر تحیة المسجد پڑھی اس کے بعد جبرائیل امین نے مجھ سے پوچھا راستے میں کیا ماجرا پیش آیا ' میں نے پیش آمدہ واقعہ ذکر کردیا اس پر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا جو آواز آپ نے دائیں طرف سے سنی تھی وہ یہود کا داعی تھا' اگر آپ ٹھہرجاتے تو آپ کی امت مذہب یہودیت اختیار کرتی اور بائیں جانب کی آواز داعی نصاری کی تھی' بالفرض آپ وہاں رک جاتے اوران کی متابعت کرتے تو آپ کی امت کے لوگ نصاری ہوجاتے اور جو عورت بن سنور کر سامنے کی طرف سے آئی وہ دنیا تھی اگر آپ ٹھہر جاتے ''لاخترت الدنیاعلی الاخرة'' آپ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے لیکن آپ نے یہ سب کچھ چھوڑ کرآگے بڑھے اور حق ہی کو اختیار کیا۔
شیخی ووالدی  فرماتے ہیں کہ بخاری شریف میں حدیث ہے کہ جب حضور اقدس ا  شب معراج میں جبرائیل   کیساتھ اوپر تشریف لے جارہے تھے تو بیت المقدس میں بطور مہمانی و ضیافت مختلف مشروبات پیش کئے گئے' ایک گلاس پانی کا بھرا ہواتھا 'دوسرے میں شہد تھا اور تیسرے میں دودھ تھا اورچوتھے میں شراب تھی' مگر یادر ہے کہ یہ جنت کی شراب تھی یعنی (شرابا طہورا )جو تمام مسلمانوں کو جنت میں ملیگی اور طیب وطاہر اور ہر قسم کی خرابیوں سے پاک صاف ہوگی' مگر پھر بھی شراب ہی اسکا نام تھا' حضوراقدس ا  نے نہ پانی لیا نہ شہد اورنہ شراب بلکہ دودھ پی لیا 
Flag Counter