عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
جو چمن سے گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بُلبل زار سے کہ خزاں کے دن بھی ہیں سامنے نہ لگانا دل کو بہار سے خواب و خیال کی دنیا فانی ہے، یہ چمن جنگل ہونے والے ہیں، کالے بال سفید ہونے والے ہیں۔ گال پچکنے والے ہیں، دانت منہ سے باہر آنے والے ہیں، کمر جھکنے والی اور بڑھاپا آنے والا ہے، بچپن جوانی سے، جوانی بڑھاپے سے اور بڑھاپا موت سے تبدیل ہونے والا ہے اور موت قبروں میں لے جانے والی ہے، جو بچپن کو بھی لے جاتی ہے اور جوانی کو بھی لے جاتی ہے۔ دنیا سے وہی دل لگاتا ہے جو پاگل و بے وقوف ہوتا ہے۔ عارضی لذّت کے لیے اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر حلال کررہا ہے،لیکن اگر خدانخواستہ اسی حالت میں موت آگئی اور بغیر توبہ کے مرگیاتو اس کا کیا حال ہوگا؟ مرنے کے بعد تو جو ہوگاسو ہوگا، دنیا ہی میں نافرمانی کا عذاب دل پر شروع ہوجاتا ہے۔ بادشاہ ہمیشہ بادشاہ کو گرفتار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسم پر عذاب نازل کرنے سے پہلے جسم کے بادشاہ یعنی دل کو پکڑلیتے ہیں، کسی گناہ گار کو چین و سکون نہیں، ہر وقت پریشان رہتا ہے، جیسے ہیروئن پینے والا سِسک سِسک کر مررہا ہوتا ہے، مگر ہیروئن چھوڑنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ دوسروں کو اس پر رحم آتا ہے مگر اسے اپنے اوپر رحم نہیں آتا۔ بعض وقت انسان کو گناہ کی ایسی بُری عادت پڑجاتی ہے کہ ساری دنیا اس پر رحم کرے، اس کے لیے رو رو کر دُعا مانگے مگر اس ظالم کو اپنے اوپر رحم نہیں آتا، اسی لیے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر راستے میں کوئی کانٹے دار درخت اُگ جائے تو اسے فوراً اُکھاڑ پھینکو، یہ نہ کہو کہ کل اُکھاڑیں گے ، جنہوں نے کہا کہ کل اکھاڑیں گے، تو کل کل کرتے ہوئے اس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں گھس گئیں اور وہ درخت مضبوط ہوگیا اور اُکھاڑنے والا کمزور ہوگیا۔ اب اکھاڑنا بھی چاہے گا تو نہیں اُکھاڑ سکے گا، اسی لیے مولانا رومی نصیحت فرماتے ہیں کہ گناہوں کو جلدی چھوڑ دو، ورنہ اگر دیر کرو گے تو گناہوں کو چھوڑنا بھی چاہو گے تو نہیں چھوڑ سکو گے۔بعض ہیروئن پینے والوں کو میں نے دیکھا کہ پولیس انہیں پکڑ کر پٹائی کررہی تھی۔ ان کی حالت کو دیکھ کر رونا آ گیا کہ آہ! مسلمان کس حالت میں ہے ،صحت بھی ایسی خراب کہ مرنے کےقریب ہے۔ شیخ العرب والعجم حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃاللہ علیہ کا ایک شعر یاد آگیا ؎