Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 4 - یونیکوڈ

94 - 485
لم تکن حاضرة ذکر قیمتھا ]٢٧٣٣[(٤) وان ادعی عقارا حدَّدہ وذکر انہ فی ید المدعی علیہ وانہ یطالبہ بہ]٢٧٣٤[ (٥)وان کان حقا فی الذمة ذکر انہ یطالبہ بہ ]٢٧٣٥[(٦)فاذا صحت الدعوی سأل القاضی المدعی علیہ عنھا فان اعترف قضی علیہ 

کر سکتا ہو تو چیز کی قیمت بیان کرے ۔
 وجہ  دعوی یا گواہی کے وقت اشارہ کرنے سے چیز متعین ہوگی اس لئے اس کو حاضر کرنے کو کہا جائے گا۔اور حاضر نہ کرسکے تو اس کی قیمت بیان کرے ۔کیونکہ قیمت سے بھی کچھ نہ کچھ تعین ہوجاتا ہے۔
]٢٧٣٣[(٤) اگر زمین کا دعوی کیا تو اس کی حدود بیان کرے اور یہ بھی ذکر کرے کہ مدعی علیہ کے قبضے میں ہے اور وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے۔  تشریح  زمین کو مجلس قضا میں حاضر نہیں کر سکتا ہے اس لئے اس کی حدود اربعہ بیان کرے کہ اس زمین کے مشرق،مغرب،جنوب اور شمال میں کون کون لوگ ہیں۔اس دور میں یہ بھی بیان کرے کہ زمین کا کھاتہ نمبر کیا ہے اور خسرہ نمبر کیا ہے تاکہ زمین متعین ہو جائے۔اور منقولی جائداد ہو یا غیر منقولی یہ بھی بیان کرے کہ یہ مدعی علیہ کے قبضے میں ہے۔کیونکہ مدعی علیہ کے قبضے میں نہیں ہے بلکہ خود مدعی کے قبضے میں ہے تو دعوی کرنے کا کیا مطلب ہے۔اور یہ بھی کہے کہ میں اس زمین کویا منقولی جائداد کو واپس لینا چاہتا ہوں۔کیونکہ اگر واپس لینا نہیں چاہتا ہے تو دعوی کرنے اور مقدمہ کرنے کا کیا حاصل ہوگا ۔
 وجہ  حدیث مذکور میں تھا کہ یہ زمین میرے والد کی ہے جس سے اس کی حدود اربعہ معلوم ہوئی ۔اور فقال الحضرمی یا رسول اللہ ان ھذا غلبنی علی ارض کانت لابی (الف) سے مطالبہ کرنا بھی معلوم ہوا۔
]٢٧٣٤[(٥)اور اگر اس کے ذمے حق ہو تو ذکر کرے کہ وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے۔  
تشریح  مثلا دعوی یہ تھا کہ زید کے ذمے بیس درہم میرا قرض ہے تو قرض ہونا ذمے میں حق ہوا۔تو اس صورت میں بھی دعوی کے ساتھ یہ ذکر کرے کہ میں اس قرض کا مطالبہ کرتا ہوں تاکہ معلوم ہوا کہ صرف حق کا اقرار نہیں کروانا چاہتا بلکہ اس کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔  
اصول  یہ مسئلے اس اصول پر ہیں کہ متعرف  اور متعین چیز کا دعوی ہوتا ہے مجہول کا دعوی نہیں ہوتا۔
]٢٧٣٥[(٦)پس جب دعوی صحیح ہو جائے تو قاضی مدعی علیہ سے اس کے بارے میں پوچھے۔پس اگر اس نے اعتراف کرلیا تو اس پر اس کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔  
تشریح  مدعی کے دعوی دائر کرنے کے بعد قاضی مدعی علیہ سے پوچھے گا کہ کیا واقعی مدعی کا دعوی صحیح ہے؟ اگر وہ اس کا اعتراف کرلے کہ واقعی مدعی کا میرے ذمے حق ہے تو قاضی اس کا فیصلہ کردے گا۔اب گواہ یا قسم کی ضرورت نہیں ہے۔  
وجہ  جب مدعی علیہ نے اعتراف کر لیا تو اب گواہ کی یا مدعی علیہ کی قسم کی کیا ضرورت رہی(٢) اثر میں ہے۔عن ابن سیرین قال اعترف 

حاشیہ  :  (الف) پس حضرمی نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے جو میرے باپ کی تھی۔

Flag Counter