]٢٦٤٩[(٥)فاذا حنث فی ذلک لزمتہ الکفارة ؤ٢٦٥٠[(٦)ویمین اللغو ھو ان یحلف
٩٨٠ نمبر ٦٦٢٣ مسلم شریف ، باب ندب من حلف یمینا فرای غیرھا خیرا منھا ص ٤٦ نمبر ١٦٤٩) اس حدیث میں حضورۖ نے اونٹ پر سوار نہ کرنے کی قسم کھائی ہے ۔چونکہ آئندہ کے بارے میں ایک کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہے اس لئے اس کو یمین منعقدہ کہتے ہیں۔
ّ]٢٦٤٨[(٥)پس جب اس میں حانث ہو جائے تو اس کو کفارہ لازم ہوگا۔
وجہ اوپر آیت گزری جس میں ہے کہ حانث ہو جائے یعنی وہ کام نہ کرسکے تو قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔آیت یہ ہے۔لایواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ اطعام عشرة مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبة فمن لم یجد فصیام ثلاثة ایام ذلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم (الف) (آیت ٨٩ سورة المائدة ٥) اس آیت میں ہے کہ یمین منعقدہ میں حانث ہو جائے تو کفارہ لازم ہوگا پھر کفارے کی تفصیل آیت میں بیان کی گئی ہے (٢) حدیث بھی گزری۔لا احلف علی یمین فاری غیرھا خیرا منھا الا کفرت عن یمینی واتیت الذی ھو خیر (ب) (بخاری شریف، نمبر ٦٦٢٣ مسلم شریف، نمبر ١٦٤٩) اس حدیث میں ہے کہ حانث ہو جاؤں تو کفارہ دیتا ہوں۔
]٢٦٤٩[(٦)اور یمین لغو یہ ہے کہ گزری ہوئی باتوں پر قسم کھائے وہ گمان کرتے ہوئے کہ ایسی ہی ہے جیسا کہا حالانکہ معاملہ اس کے خلاف ہو۔یہ قسم ہے ،ہم امیدکرتے ہیں کہ اللہ قسم والے سے مواخذہ نہیں کریںگے۔
تشریح گزری ہوئی بات کے سلسلے میں قسم کھانے والے کا گمان تھا کہ بات ایسی ہی ہے اسی پر قسم کھالی حالانکہ معاملہ اس کے خلاف تھا تو یہ یمین لغو ہے۔ اس پر امید ہے کہ اللہ تعالی مواخذہ نہیں فرمائیںگے۔
وجہ آیت میں ہے کہ مواخذہ نہیں فرمائیںگے ۔ لایواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم (ج) (آیت ٨٩ سورة المائدة ٥) اس آیت میں ہے کہ اللہ یمین لغو میں مواخذہ نہیں فرمائیںگے۔
یمین لغو کی تفصیل کے لئے یہ اثر ہے۔ سمعت الشعبی یقول البر والاثم ماحلف علی علمہ وھو یری انہ کذلک لیس فیہ اثم ولیس علیہ کفارة (د) (مصنف عبد الرزاق ، باب اللغو وموھو؟ ج ثامن ص ٤٧٥ نمبر ١٥٩٥٧ سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی الیمین الغموس ج عاشر ص ٦٧ نمبر ١٩٨٨٢) اس اثر میں ہے کہ جیسا معلوم ہو ایسا ہی گمان کرتے ہوئے قسم کھانا یمین لغو ہے۔دوسری روایت یہ ہے کہ ایسے ہی لا ابالی پن میں جو اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں اس کو یمین لغو کہتے ہیں اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔قالت عائشة ان رسول اللہ ۖ
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے) پاس اشعر یین کی جمات میں آیا سواری کے لئے اونٹ مانگنے کے لئے تو آپۖ نے فرمایا خدا کی قسم میں تم کو اونٹ نہیں دے سکتا۔میرے پاس اونٹ دینے کے لئے نہیں ہے(الف) اللہ تم کو نہیں پکڑے گا لغو قسم میں لیکن تم کو پکڑے گا جس میں قسم کی گرہ باندھی۔پس اس کا کفارہ دس مسکین کا کھانا کھلانا ہے اوسط جو تم اپنے اہل کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنانا ہے یا غلام آزاد کرنا ہے،پس جو یہ نہ پائے تو تین دن روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسم کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ(ب)کسی بات پر قسم کھاتا ہوںپھر اس کے علاوہ کو خیر سمجھتا ہوںتو اپنی قسم کا کفارہ دیتا ہوں اور وہ کرتا ہوں جو خیر ہو(ج) اللہ تمہاری لغو قسم پر گرفت نہیں کرتے ہیں (د) نیکی اور گناہ کا مدار جو اپنی معلومات کے مطابق قسم کھائے وہ قسم کھائے اور سمجھے کہ ایسے ہی ہے تو اس میں گناہ نہیں ہے اور نہ اس پر کفارہ ہے۔