]٢٦٤٥[(٢)فیمین الغموس ھی الحلف علی امر ماضٍ یتعمّد الکذب فیہ۔
بارے میں قسم کھائے کہ میں ایسا کروں گا تو اس سے قسم کھاکر ایک بات کو منعقد کیا۔ اگر وہ کام نہ کر سکے تو اس پر کفارہ لازم ہے۔یا غلام آزاد کرے یا دس مسکین کو کھانا کھلائے یا دس مسکین کو اوسط درجے کا کپڑا پہنائے یا پھر تین روزے رکھے ۔
وجہ اوپر کی آیت میں اس کا تذکرہ ہے (٢) اس حدیث میں ہے۔ عن ابی بردة عن ابیہ قال اتیت النبی ۖ فی رھط من الاشعریین ... وانی واللہ ان شاء اللہ لا احلف علی یمین فاری غیرھا خیرا منھا الا کفرت عن یمینی واتیت الذی ھو خیر او اتیت الذی ھو خیر وکفرت عن یمینی (الف) (بخاری شریف، باب قول اللہ تعالی لا یوخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ص ٩٨٠ نمبر ٦٦٢٣ مسلم شریف ، باب ندب من حلف یمینا فرأی غیرھا خیرا منھا ج ثانی ص ٤٦ نمبر ١٦٤٩)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یمین منعقدہ ہوتو اس کو توڑنے پر کفارہ لازم ہوگا۔ اور یمین لغو یہ ہے کہ کسی گذشتہ کام پر قسم کھائے کہ ایسا ہوچکا ہے اوراس کا یقین ہو کہ ایسا ہی ہوا ہے لیکن ایسا ہوا نہیں تھا تو اس کو یمین لغو کہتے ہیں اس پر کفارہ نہیں ہے۔
وجہ اوپر کی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔لایواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان (ب) (آیت ٨٩ سورة المائدة ٥) اثر میں ہے۔ سمعت الشعبی یقول البر والاثم ما حلف علی علمہ وھو یری انہ کذلک لیس فیہ اثم ولیس علیہ کفارة (ج) (مصنف عبد الرزاق ، باب اللغو وما ھو؟ ج ثامن ص ٤٧٥ نمبر ١٥٩٥٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ یمین لغو میں کفارہ نہیں ہے۔
]٢٦٤٥[(٢)پس یمین غموس یہ ہے ،وہ قسم کھانا ہے گذشتہ بات پر جان کر جھوٹ بولتے ہوئے۔
تشریح جانتا ہے کہ یہ بات ایسی نہیں ہے پھر بھی جان کر جھوٹ بولے اور کہے کہ ایسا ہے اس کو یمین غموس کہتے ہیں۔
وجہ اثر میں ہے۔ قال ثم الیمین الغموس قال فقلت لعامر ماالیمین الغموس؟ قال الذی یقتطع ما ل امریٔ مسلم بیمینہ وھو فیھا کاذب (د) (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی الیمین الغموس ج عاشر ص ٦٢ نمبر ١٩٨٦٨) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بول کر کسی کے مال کو لے لینا اس کویمین غموس کہتے ہیں (٢) اور دوسرے اثر میں ہے۔عن ابراھیم قال الایمان اربع یمینان یکفران ویمینان لایکفران،قول الرجل واللہ مافعلت واللہ لقد فعلت لیس فی شیء منہ کفارة ان کان تعمد شیئا فھو کذب وان کان یری انہ کما قال فھو لغو (ہ) (سنن للبیہقی ، باب ماجاء فی یمین الغموس ج عاشر ص ٦٧ نمبر ١٩٨٨٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ
حاشیہ : (الف) حضرت ابو بردہ فرماتے ہیں کہ میں اشعریین کی جماعت میں حضورۖ کے پاس آیا... آپۖ نے فرمایا میں خدا کی قسم کوئی بھی قسم کھاتا ہوں اور اس کے خلاف خیر دیکھتا ہوں تو یقینا اپنے قسم کا کفارہ دیتا ہوں اور وہ کرتا ہوں جو خیر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دیتا ہوں (ب) اللہ تم کو تمہاری لغو قسم میں نہیں پکڑے گا لیکن تم کو پکڑے گا جو قسم کی گرہ باندھا (ج) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ نیکی اور گناہ کا مدار اس پر ہے کہ اپنی معلومات کے مطابق قسم کھائے وہ سمجھتا ہو کہ ایسا ہی ہے تو اس میں گناہ نہیں ہے اور اس میں کفارہ بھی نہیں ہے۔یعنی اپنی معلومات کے مطابق قسم کھائی تو گناہ بھی نہیں اور کفارہ بھی نہیں(د) پھر یمین غموس ،میں نے حضرت عامر سے پوچھا یمین غموس کیا ہے؟ فرمایا کسی آدمی کا مال جھوٹی قسم سے حاصل کرے(ہ) حضرت ابراہیم نے فرمایا قسم کی چار صورتیں ہیں۔ دو میں کفارہ لازم(باقی اگلے صفحہ پر)