]٢٦٤٣[ (١٧)واذا غلط رجلان فذبح کل واحد منھما اضحیة الآخر اجزأ عنھما ولا ضمان علیھما۔
عیسائیوں کا دین صرف شراب پینا ہے۔ اس لئے ان کا ذبیحہ مکروہ ہے بلکہ ناجائز ہے (٤) اثر میں ہے۔عن ابن عباس انہ کرہ ان یذبح نسیکة المسلم الیھودی والنصرانی (الف) (سنن للبیہقی، باب النسیکة یذبحھا غیر مالکھا ج تاسع ص ٤٧٨ نمبر ١٩١٦٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی کی ہوئی قربانی مکروہ ہے۔
]٢٦٤٣[(١٧)اگر غلطی کی دو آدمیوں نے اور ذبح کردیا ہر ایک نے دوسرے کی قربانی تو دونوں کو کافی ہو جائے گا اور دونوں پر ضمان نہیں ہے۔
تشریح دو آدمیوں کے جانور تھے دونوں نے غلطی سے اپنے جانور کے بجائے دوسرے کا جانور ذبح کردیا تو دونوں کی قربانی ادا ہو جائے گی اور کسی پر کسی کا ضمان لازم نہیں ہوگا ۔
وجہ دونوں نے جانور قربانی ہی کے لئے خریدا ہے اس لئے دونوں کی نیت قربانی کی ہے اور بارہویں تاریخ گزرنے کے بعد قربانی نہیں ہو سکے گی اس لئے دونوں کی دلی تمنا یہ ہے کہ کوئی وقت کے اندر میری قربانی کردے اس لئے اشارة دونوں کی جانب سے قربانی کرنے کی اجازت ہے اس لئے دونوں کی قربانی ہو جائے گی۔ اور چونکہ جانور کو مصرف میں خرچ کیا ہے اس لئے کسی پر ضمان لازم نہیں ہوگا (٢) حدیث میں ہے کہ آپۖ نے ازدواج مطہرات کی اجازت کے بغیر ان کی جانب سے قربانی کی اور ادا بھی ہو گئی۔ حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔عن عائشة قالت ... وضحی رسول اللہ ۖ عن نسائہ بالبقر (ب) (بخاری شریف ، باب من ذبح ضحیة غیرہ ص ٨٣٤ نمبر ٥٥٥٩ مسلم شریف، باب جواز الاشتراک فی الھدی وجزاء البدنة والبقرة کل واحد منھما عن سبعة ص ٤٢٤ نمبر ١٣١٩ ابو داؤد شریف ، باب فی ھدی البقر ص نمبر ١٧٥١)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشارے کے طور پر قربانی کی اجازت ہو اور دوسرے نے بغیر صراحت کی اجازت کے قربانی کردی تو کافی ہو جائے گی ۔
اصول یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ اشارہ اور کنایہ کے طور پر اجازت ہوتو بعض موقع پر یہ اجازت بھی کافی ہے۔
لغت اجزاء : کافی ہوگا۔
حاشیہ : (الف) حضرت ابن عباس ناپسند کرتے تھے کہ مسلمان کا جانور یہودی یا نصرانی ذبح کرے(ب)حضورۖ نے اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے قربانی کی۔