]٣١٩٧[(٦٠) وان قال ثلث مالی بین زید وعمرو وزید میّت کان لعمر ونصف الثلث]٣١٩٨[(٦١) ومن اوصٰی بثلث مالہ ولا مال لہ ثم اکتسب مالا استحق الموصٰی لہ ثلث مایملکہ عند الموت۔
]٣١٩٧[(٦٠)اگر کہا کہ میرا تہائی مال زید اور عمر کے درمیان میں ہے اور زید مرچکا ہے تو عمر کے لئے تہائی کا آدھا ہوگا۔
وجہ لفظ 'بین' دلالت کرتا ہے کہ دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو۔اس لئے زید مرگیا تو اس کا حصہ موصی کے ورثہ کی طرف واپس لوٹ جائے گا۔اور باقی یعنی تہائی کا آدھا عمر کو مل جائے گا۔
]٣١٩٨[(٦١)کسی نے اپنے تہائی مال کی وصیت کی اور اس کے پاس مال نہیں ہے۔پھر کچھ مال کمایا تو موصی لہ اس کی تہائی کا مستحق ہوگا جو موصی مالک ہو موت کے وقت۔
تشریح یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ وصیت کے وقت مال ہو یا نہ ہو،موت کے وقت کتنا مال ہے اس میں وصیت جاری ہوگی۔اب صورت مسئلہ میں وصیت کے وقت مال نہیں ہے لیکن بعد میں مثلا تین ہزار درہم کمایا تو اس کی تہائی ایک ہزار موصی لہ کو ملے گی۔
وجہ وصیت موصی کے مرنے کے بعد نافذ ہوتی ہے۔اس لئے موت کے وقت کتنا مال موجود ہے اس کی تہائی میں وصیت نافذ ہوگی(٢) اس آیت میں اس کا اشارہ ہے۔فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیة توصون بھا او دین (الف) (آیت ١٢، سورة النسائ٤) اس آیت میں ترکتم سے اشارہ ہے کہ موت کے وقت جو چھوڑے اس میں میراث اور وصیت جاری ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کتنا مال ہے اس کا اعتبار نہیں ہے۔
حاشیہ : (الف) بیویوں کے لئے آٹھواں ہے جو کچھ چھوڑا اس میں وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد۔