]٣١٣٩[(٢) ولا تجوز الوصیة للوارث الا ان یُجیزھا الورثة۔
وجہ وارثین کو تو حصہ مل ہی جائے گا۔اب دوسرے لوگوں کو وصیت کرکے مال کا ہدیہ دینا ہے۔اور ہدیہ دینا مستحب ہے اس لئے وصیت بھی مستحب ہوگی (٢) حدیث میں ہے کہ حضورۖ نے وصیت نہیں کی۔اگر وصیت کرنا واجب ہوتا تو آپۖ ضرور کرتے۔اس سے معلوم ہوا کہ وصیت کرنا مستحب ہے۔ حدیث یہ ہے۔سالت عبد اللہ بن ابی اوفی اوصی النبی ۖ فقال لا! فقلت کیف کتب علی الناس الوصیة او امروابھا ؟قال اوصی بکتاب اللہ (الف) (بخاری شریف، باب مرض النبی ۖ ووفاتہ ، ص ٦٣٧، نمبر ٤٤٦٠ ابن ماجہ شریف، وھل اوصی رسول اللہ ۖ ،ص ٣٨٨، نمبر ٢٦٩٥ ابوداؤد شریف، باب ماجاء فیما یومر بہ من الوصیة ، ج ٢، ص ٣٩، نمبر ٢٨٦٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورۖ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی مال کی وصیت نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت واجب نہیں ہے (٢) ایک حدیث میں وصیت کو صدقہ قرار دیا ہے اور صدقہ کرنا مستحب ہے۔اس لئے وصیت کرنا بھی مستحب ہوگا۔حدیث یہ ہے ۔عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ ان اللہ تصدق علیکم عند وفاتکم بثلث اموالکم زیادة لکم فی اعمالکم (ب) (ابن ماجہ شریف، باب الوصیة بالثلث ، ص٣٩٠،نمبر ٢٧٠٩) اس حدیث میں ہے کہ اللہ نے تم پر صدقہ کیا تہائی مال وصیت کرنے کا ،اور صدقہ کرنا مستحب ہے اس لئے وصیت بھی مستحب ہوگی۔
اگر کسی کا قرض ہو یا کسی کی امانت ہو جن کا ادا کرنا ضروری ہو تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے ۔
وجہ حدیث میں اس کی تاکید ہے۔ عن عبد اللہ یعنی ابن عمر عن رسول اللہ ۖ قال ماحق امریٔ مسلم لہ شیء یوصی فیہ یبیت لیلتین الا ووصیة مکتوبة عندہ (ج) (ابوداؤد شریف، باب ماجاء فیما یومر بہ من الوصیة ،ص ٣٩، نمبر٢٨٦٢ ابن ماجہ شریف، باب الحث علی الوصیة ،ص ٣٨٩، نمبر ٢٦٩٩) اس حدیث میں ہے کہ کوئی چیز وصیت کرنے کی ہو تو دو راتیں بھی تاخیر نہ کرو کہ وصیت لکھی ہوئی ہو۔ جس سے معلوم ہوا کہ امانت یا قرض دینا ہوتو وصیت لکھ کر رکھے،ایسی وصیت واجب ہے۔
]٣١٣٩[(٢)وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ورثہ اس کی اجازت دے۔
تشریح شروع اسلام میں وارثین کے لئے وصیت واجب تھا بعد میں قرآن نے سب حصے داروں کا حصہ متعین کردیا تو اب وہ منسوخ ہوگیا۔ اب وارثین کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔کیونکہ اس میں بعض وارث کو زیادہ ملے گا۔ اور بعض حقدار کو کم ، ہاں !باقی ورثہ اس وصیت کو نافذ کرنے کی اجازت دے تو نافذ کردی جائے گی۔
وجہ پہلے وارثین کے لئے وصیت کرنا واجب تھا اس کی دلیل یہ آیت ہے۔کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیرا
حاشیہ : (الف) میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے پوچھا کیا حضورۖ نے وصیت کی تھی؟ فرمایا نہیں۔میں نے کہا لوگوں پر وصیت کیسے فرض کی گئی یا اس کا حکم دیا گیا؟ فرمایا کتاب اللہ کو پکڑے رہنے کی وصیت کی(ب) آپۖ نے فرمایا اللہ نے تم پر صدقہ کیا ہے تمہاری وفات کے وقت تمہارے تہائی مال کا تمہارے اعمال میں زیادتی کے لئے (ج) آپۖ نے فرمایا کسی آدمی کے حق کے بارے میں وصیت لکھنی ہو تو دو رات بھی نہیں گزرنی چاہئے کہ اس کے پاس وصیت لکھی ہوئی ہونی چاہئے۔