یقم بہ احد اَثِمَ جمیع الناس بترکہ]٢٩٨١[(٢) وقتال الکفار واجب وان لم یبدؤنا۔
سے معلوم ہوا کہ ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے جس سے معلوم ہوا کہ جہاد اقدامی میںسب پر جہاد فرض عین نہیں ہے(٢) حدیث میں ہے کہ ایک جماعت قیامت تک جہاد کرے گی ۔سمع جابر بن عبد اللہ یقول سمعت النبی ۖ یقول لا تزال طائفة من امتی یقاتلون علی الحق ظاہرین الی یوم القیامة (الف) (مسلم شریف، باب نزول عیسی ابن مریم حاکما بشریعة نبینا الخ۔ص ٨٧،نمبر ١٥٦ ابو داؤد شریف، باب فی دوام الجہاد، ص ٣٤٣، نمبر ٢٤٨٤) اس حدیث میں ہے کہ ایک جماعت قیامت تک جہاد کرے گی۔ اس ایک جماعت سے اشارہ ہوتا ہے کہ باقی پر جہاد نہیں ہے۔ اس سے فرض کفایہ ثابت ہوتا ہے (٢)دوسری حدیث میں ہے۔عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ۖ لا ھجرة بعد الفتح ولکن جھاد ونیة واذا استنفرتم فانفروا (ب) (بخاری شریف، باب فضل الجہاد والسیر الخ ،ص ٣٩٠، نمبر ٢٧٨٣ مسلم شریف، باب المبایعة بعد متح مکة علی الاسلام والجہاد والخیر الخ ،ص ١٣٠، نمبر ١٨٦٤) اس حدیث میں ہے کہ جب امیر بلائے تو جہاد میں جاؤ۔اس سے اشارہ ہوتا ہے کہ جس کو نہ بلائے اس پر جہاد میں جانا فرض نہیں ہے۔ اس سے بھی عام حالات میں فرض کفایہ کا ثبوت ملتا ہے۔(٣) سب جہاد کرنے چلے جائیں تو گھر کا کام کون کرے گا اور گاؤں والوں کو کون سمجھائے گا۔اس لئے بھی جہاد فرض کفایہ ہی ہوگا۔
]٢٩٨١[(٢)کفار سے قتال واجب ہے چاہے وہ ابتدا نہ کریں۔
تشریح کفار جنگ کی ابتدا نہ بھی کریں تب بھی کفر سے قتال واجب ہے۔
وجہ آیت میں ہے ۔فان تولوا فخذوھم واقتلوھم حیث وجدتموھم ولا تتخذوا منھم ولیا ولا نصیرا (ج) (آیت ٨٩، سورة النساء ٤) اس آیت میں ہے کہ کفر پشت پھیر کر بھاگ جائیں تب بھی ان کو پکڑو اور قتل کرو۔اور ظاہر ہے کہ یہ پشت پھیر کر بھاگ گئے تو اب وہ قتال نہیں کر رہے ہیں۔پھر بھی ان کو پکڑنے اور قتل کرنے کا حکم دیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ قتال نہ کرے تب بھی ان سے جہاد کرنا واجب ہے (٢) دوسری آیت میں ہے ۔ وقاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة واعلموا ان اللہ مع المتقین (د) (آیت ٣٦، سورة التوبة ٩) اس آیت میں ہے کہ جس طرح کفار تمہارے ساتھ قتال کرے رہے تھے تم بھی سب کفار سے قتال کرو۔ اور کفار ابھی ہیں اس لئے قتال بھی کرنا ہوگا چاہے وہ قتال نہ کریں(٣) حدیث میں ہے کہ مدینہ کے یہود نے ساز باز کی تھی لیکن ابھی قتال شروع نہیں کیا تھا پھر بھی حضورۖ اس کی طرف چلے اور مدینہ سے نکل جانے کا اشارہ دیا۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔ عن ابی ھریرة انہ قال بینا نحن فی المسجد اذ خرج الینا رسول اللہ ۖ فقال انطلقوا الی یہود فخرجنا معہ حتی جئناھم فقال رسول اللہ ۖ
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا ہمیشہ ایک جماعت حق کے لئے قتال کرتی رہے گی اور قیامت تک غالب آتی رہے گی(ب) آپۖ نے فرمایا فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت فرض نہیں ہے لیکن جہاد فرض ہے۔اور اس کی نیت کرنا بھی ضروری ہے۔اور اگر جہاد کے لئے بلائے جاؤ تو ضرور جہاد کے لئے جاؤ (ج)اگر پشت پھیر لے تو اس کو پکڑو اور جہاں پاؤ اس کو قتل کرو ۔اور ان میں سے کسی کو دوست اور مددگار نہ بناؤ(د)مشرکین سے پورا پورا جنگ کرو جیسے وہ تم سے جنگ کرتے ہیں۔اور یقین کرو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے ۔