]٢٨١٠[(١)الشھادة فرض تلزم الشھود ولا یسعھم کتمانھا اذا طالبھم المدعی ]٢٨١١[(٢) والشھادة فی الحدود یُخیَّر فیھا الشاھد بین الستر والاظھار والستر
]٢٨١٠[(١)گواہی دینا فرض ہے۔ گواہوں کو لازم ہے اور اس کو چھپانے کی گنجائش نہیں ہے اگر ان سے مدعی اس کا مطالبہ کرے۔
تشریح ان گواہوں کے علاوہ کوئی اور گواہ نہیں ہے اور مدعی گواہوں سے گواہی دینے کا مطالبہ کر رہا ہے تو ان گواہوں پر گواہی دینا فرض ہے۔ عام معاملات میں گواہی چھپانے کی گنجائش نہیں ہے۔
وجہ چونکہ اور گواہ نہیں ہے۔ اس لئے اگر اس نے گواہی نہیں دی تو مدعی کا حق ضائع ہو جائے گا۔ اس لئے اس کو حق دلوانے کے لئے گواہی دینا فرض ہے(٢) آیت میں اس کی ترغیب ہے۔ ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا (آیت ٢٨٢،سورة البقرة ٢) ولاتکتموا الشھادة ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ (الف) (آیت ٢٨٣،سورة البقرة٢) ان دونوں آیتوں میں ہے کہ مدعی بلائے تو گواہ گواہی دینے سے انکار نہ کرے۔ اور یہ بھی ہے کہ گواہی چھپائے نہیں۔ اگر چھپایا تو گنہگار ہوگا۔ حدیث میں ترغیب ہے۔عن زید بن خالد الجہنی ان النبی ۖ قال الا اخبرکم بخیر الشھدائ؟ الذی یاتی بشھادتہ قبل ان یسألھا (ب) (مسلم شریف ،باب بیان خیر الشھود ،ج ٢، ص ٧٧، نمبر ١٧١٩ ابو داؤد شریف، باب فی الشھادة، ج ٢ ،ص ١٥٠،نمبر ٣٥٩٦)
نوٹ یہ صورت حال معاملات میں ہے۔ البتہ حدود اور قصاص میں گواہی دینے اور گواہی چھپانے کا اختیار ہے۔
]٢٨١١[(٢)اور گواہی حدود میں گواہ کو اختیار ہے چھپانے اور ظاہر کرنے کے درمیان۔اور چھپانا بہتر ہے۔
تشریح حدود میں گواہی دینے سے انسان کی جان جائے گی یا عضو جائے گا اس لئے اس کی رعایت کرتے ہوئے گواہ کو دونوں اختیار ہیں۔چاہے گواہی چھپادے چاہے گواہی دے دے۔ لیکن چھپانا زیادہ بہتر ہے۔
وجہ تاکہ انسان کی جان ضائع نہ ہو۔(٢) حدیث میں اس کا اشارہ ہے۔حضرت ماعز رجم کا پتھر کھا کر بھاگے ہیں تو آپۖ نے حضرت عبد اللہ بن انیس سے فرمایا کہ جب بھاگ گیا تو اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا۔ شاید توبہ کرلیتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتے۔ حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔ حدثنی یزید بن نعیم بن ہزال عن ابیہ ... ثم اتی النبی ۖ فذکر لہ ذلک فقال ۖ ھلا ترکتموہ، لعلہ ان یتوب فیتوب اللہ علیہ (ج) (ابو داؤد شریف، باب رجم ماعز بن مالک،ج٢، ص ٢٦٠، نمبر ٤٤١٩)ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے ۔وقال لھزال لو سترتہ بثوبک کان خیرا لک (د) (ابو داؤد شریف،باب الستر علی اہل الحدود،ص٢٥٣،نمبر ٤٣٧٧)(٣) چور نے چوری کا اعتراف کیا تو آپ نے اس کو پھسلانے کے لئے فرمایا ،میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے تاکہ اس کا ہاتھ نہ کٹے۔حدیث یہ ہے۔ عن ابی
حاشیہ : (الف) جب گواہوں کو بلائے جائیں تو وہ انکار نہ کیا کریں۔ دوسری آیت میں ہے۔ گواہی چھپایا نہ کرو اور جو اس کو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے (ب) آپۖ نے فرمایا تم کو بہترین گواہ نہ بتاؤں ؟ گواہی مانگنے سے پہلے گواہی دیدے وہ بہترین گواہ ہے(ج)پھر وہ حضورۖ کے پاس آئے اور حضرت ماعز کے بھاگنے کا تذکرہ کیاتو آپۖ نے فرمایا ان کا چھوڑ کیوں نہ دیا؟ شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ توبہ قبول کر لیتے (د) آپۖ نے حضرت ہزال سے فرمایا کاش کہ اپنے کپڑے سے ڈھانک دیتے تو آپ کے لئے بہتر ہوتا۔