بستر چور نکلا… اس زمانے کے لوگ پائوں کے نشانا ت کے بڑے ماہر تھے … پائوںکے نشانات دیکھ کر پیچھے نکلے … اللہ والے اطمنان سے چل رہے تھے… دور سے دیکھا …آواز دی… انھوں نے پیچھے دیکھا… مجھے بلایا جارہا ہے تو ٹہر گئے… یہ لوگ جیسے پیچھے پہنچے …لگایا ایک طمانچہ… اور کہا چل تھانے میں… کیوں ؟…کہنے لگے آپ نے چوری کی ہے… جب تھانے میں پہنچے تو تھانے دار اس اللہ والے کو جانتا تھا…فوراً کھڑا ہوگیا… اپنی جگہ بٹھایا…حضرت یہاں تشریف رکھیئے …آپ نے کیسے زحمت فرمائی …؟کیسے ہمارے ہاں تشریف لائے …؟ اب جو لانے والے تھے وہ بیچارے پریشان…'' کپکپی طاری''… یہ تو جان پہچان والے نکل آئے … تھانے دار نے کہا کیا مقدمہ ہے… ؟فرمایا …یہ مجھے لے کر آئے …ان سے پوچھ لیجئے … پھر آخر میں فرمایا… تھانیدار سے …کہ آپ نے میرے ساتھ جو معاملہ کیا …احترام کا … عزت کا… یہ میرے رب کا کرم ہے… میں اس کا مستحق نہیں ہوں …اور انھوں نے مجھ سے جو معاملہ کیا…تھپڑ لگا یا…یہ میری حقیقت ہے …ایک تھپڑ مارا… دس مارتے تو بھی ٹھیک تھا۔
خوب سنئے ! اللہ والے یعنی جن کے دل میں اللہ ہووہ کسی سے کہاں ڈرتے ہیں ؟ لیکن بدلہ اللہ کے لیے نہیں لیتے …تھپڑ کا بدلہ تھپڑ سے نہیںلیا …کیوں؟اللہ تعالیٰ کیلئے …آج تو ہم کہتے ہیں …بدلہ لینا ہے… خوب سنئے …یہ آپ ا کے اخلا ق نہیں ہیں۔
دوستو!…یہ رحمن کے بندوں کے اوصاف نہیں ہیں…یہ ظلم کرنے والے توشیطان کے بندے ہیں…رحمن کے بندے ایسے ہوا کرتے ہیں دیکھئے… اُس اللہ والے نے فرمایا … تھانیدار سے… آپ نے میرے ساتھ جو معاملہ کیا…یہ میرے رب کا کرم ہے… میں اس کا مستحق نہیں ہوں…اور انھوں نے مجھ سے جو معاملہ کیایہ میری حقیقت ہے ۔
جب انسان اللہ تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے… اللہ تعالیٰ کی معرفت آجاتی ہے… پھر اپنی