کے بھی دو طریقے بتاؤں گا، ایک اختیاری ایک غیر اختیاری۔ وہ کیا ہے؟ حدیثِ قدسی ہے۔ اور حدیثِ قدسی کی کیا تعریف ہے؟
ھُوَ الْکَلَامُ الَّذِیْ یُبَیِّنُہُ النَّبِیُّ بِلَفْظِہٖ وَیُنْسِبُہٗ اِلٰی رَبِّہٖ18؎
وہ کلامِ نبوت جس کو زبانِ نبوت ادا کرے اور نبی یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ایسی حدیثوں کو حدیثِ قدسی کہا جاتا ہے۔ تو حدیثِ قدسی میں ہے:
لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ19؎
جو گناہ گار اپنی استغفار اور توبہ میں اپنے رونے کی آہ وزاری کی آوازیں شامل کردیتے ہیں، وہ اس نعمتِ مستزاد کے مستحق ہیں۔ ایک آدمی چپکے چپکے توبہ کررہا ہے، چپکے چپکے استغفار کررہا ہے، وہ مستغفر بھی ہے، تائب بھی ہے،مگر اَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ کا شرف اسے حاصل نہیں ہے۔ اَنِیْنْ کے معنیٰ آہ وزاری اور نالہ کے ہیں جس میں کچھ آواز بھی ہو، یعنی تھوڑی سے بلند آواز کہ کم سے کم خود سن لے، یہ انین ہے، جس کا نام اُردو میں سسکی ہے۔ جب تک آواز نہ نکلے عربی لغت میں وہ انین نہیں، انین میں ہلکی سی آواز ہونا ضروری ہے، لیکن اتنی زور سے بھی نہ چیخے کہ سارا محلہ گھبرا جائے، اس میں اعتدال رہے۔ تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ترجمان ارحم الراحمین کے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ
کہ جو سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں وہ سب میرے محبوب ہیں، مقبول ہیں، مگر سب میں زیادہ احب وہ ہے جو گناہوں پر ندامت کے ساتھ آہ وزاری کررہا ہو اور سسکیاں لے رہا ہو اور رونے کی ہلکی آواز بلند ہورہی ہو۔ اسی مضمون کو ایک اللہ والے شاعر نے یوں پیش کیا ہے؎
اے جلیل اشک گناہ گار کے اک قطرے کو
ہے فضیلت تری تسبیح کے سو دانوں پر
_____________________________________________
18؎ مرقاۃ المفاتیح :230/1،کتاب الایمان،دارالکتب العلمیۃ، بیروت
19؎ کشف الخفاء ومزیل الالباس،:298، رقم(805)، فی باب حرف الھمزۃ مع النون / روح المعانی:196/30، القدر(4)، داراحیاءالتراث، بیروت