صلہٴ رحمی…اسلامی معاشرے کاحُسن
محترم یرید احمد نعمانی
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَآء لُونَ بِہ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً﴾․( سورة النساء)
ترجمہ:”اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیااور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اوران دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلادیے۔ اوراللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتہ داروں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہاہے۔“(آسان ترجمہ قرآن)
تشریح وتوضیح
اسلام کامل واکمل دین ہے۔ اس میں افراط ہے نہ تفریط ۔ خود قرآن مجید نے امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام کو ”امت وسط“کہاہے۔ یہودیت وعیسائیت، باوجود سماوی مذہب کے دعوے دار ہونے کے ،اس وصف سے عاری ہیں۔اسلام صرف عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں، بلکہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں :
دین کے چار شعبے ہیں:
الف…عقائد۔
ب…دیانات( نماز،روزہ، طلاق، نکاح وغیرہ)
ج…معاملات(بیع وشرا وغیرہ)
د… معاشرت(طعام،لباس، کلام اورسلام وغیرہ)
ہ…اخلاق باطنہ(ریاواخلاص، کبروتواضع وغیرہ)…(اصلاح انقلاب امت :31)
مذکورہ شعبوں کے حوالے سے کتاب وسنت میں واضح احکام بیان کیے گئے ہیں۔ ہر ایک کی حدود بتلائی گئی ہیں۔اس کی تفصیلات وجزئیات کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں بیان فرمایاہے۔
درج بالا آیت مبارکہ شریعت مطہرہ کے ان احکام کو بیان کررہی ہے ،جن کا تعلق معاملات باہمی سے ہے۔ اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ انسانیت کا سچا ہم درد اورخیر خواہ ہے۔ یہ اعجاز وکمال کسی دوسرے مذہب میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین حنیف اولاً اہل اسلام کو خالق حقیقی کی اطاعت کا حکم دیتاہے۔ ثانیاً پوری انسانیت کے ساتھ خیر سگالی، نفع رسانی اورخیر خواہی کا سبق پڑھاتاہے۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟اس حوالے سے شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
”اس ( آیت مذکورہ) سے اشارہ ہوگیا دومضمونوں کی طرف۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ تم سب کا خالق اورموجد ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام آدمیوں کے لیے سبب وجود کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے سب کو پیدا فرمایا ،ایک ہی جان یعنی ابوالبشر آدم علیہ السلام ہے۔ جس سے معلوم ہوگیا کہ ہمارا اصلی تعلق تو اللہ تعالیٰ سے ہے۔ کیوں کہ علت تامہ اور اس کے معلول میں جس قدر تعلق اور قرب اور علاقہٴ احتیاج ہوتاہے،وہ کسی میں ممکن نہیں۔ اس کے بعد وہ تعلق اورقرب ہے ،جو افرادانسانی میں باہم پایاجاتاہے۔ کیوں کہ ان کا سبب وجود اور مخلوق منہ بالکل شے واحد ہے۔ جس سے معلوم ہوگیا کہ اول تو ہمارے ذمہ پر خدا تعالیٰ کی اطاعت لازم ہونی چاہیے کہ وہ ہمارا خالق ہے۔ اس کے بعد تمام مخلوقات میں خاص اپنے بنی نوع کی رعایت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہم پر ضروری ہوناچاہیے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے لیے مخلوق منہ( جس سے تمام انسانوں کو پیدا کیا گیا) اور سبب وجود ایک چیز کو مقرر فرمایا تو جو قرب اور اتحاد افراد انسانی میں باہم موجود ہے ،وہ کسی دوسری چیز کے ساتھ حاصل نہیں۔ اسی وجہ سے شرعاً اور عقلاً آدمیوں میں باہم حسن سلوک ایسا ضروری اوربدسلوکی اس قدر مذموم ہے جو اوروں کے ساتھ نہیں۔جس کی تفصیل نصوص اوراحکام شرعیہ میں برابر موجودہے۔ تواس موقع میں حق تعالیٰ نے اپنی خالقیت ظاہر فرماکر اپنی اطاعت کا حکم دیا اور بنی آدم کے اتحاد اصلی کو جتلاکر اس طرف اشارہ فرمایاکہ باہم ایک ہوکر رہو۔“(تفسیر عثمانی:98)
اسی حوالے سے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”سب انسانوں کو ایک ہی انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا فرماکر سب کو اخوت وبرادری کے ایک مضبوط رشتہ میں باندھ دیا۔ علاوہ خوف خدا وآخرت کے ، اس رشتہ اخوت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ باہمی ہم دردی وخیر خواہی کے حقوق پورے اداکیے جائیں۔اورانسان انسان میں ذات پات کی، اونچ نیچ، نسلی اورلونی یا لسانی امتیازات کو شرافت ورذالت کا معیار نہ بنایاجائے۔“
آگے چل کرفرماتے ہیں:”غرض یہ پوری آیت ان احکام کی تمہید ہے جو آگے اس سورت میں آنے والے ہیں۔ اس تمہید میں ایک طرف تو پروردگار عالم کے حقوق سامنے رکھ کر اس کی مخالفت سے روکا گیا۔دوسری طرف تمام افراد انسانی کو ایک باپ کی اولاد بتلا کر ان میں محبت اور باہمی ہم دردی اورخیر خواہی کے جذبات کو بیدار کیاگیا،تاکہ اہل قرابت ویتیموں اورزوجین کے درمیان باہمی حقوق کی ادائی دل سے ہوسکے۔“( معارف القرآن :279,278/2)
آیت… حدیث نبوی کے آئینے میں
آیت شریفہ میں مکرر تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا: ﴿واتقوا اللہ الذی تساء لون بہ والارحام﴾ اس میں دوباتوں کو ذکرکیا گیاہے۔ پہلی خوف خداکاحکم (جس کی وضاحت وتفصیل ان شاء اللہ تعالیٰ”نکات ومعارف“ کے تحت ذکر کی جائے گی) اور دوسری رشتہ داروں کی حق تلفی سے بچنے کی تاکید۔ یہاں ثانی الذکر کی اہمیت وتاکید سمجھنا مقصود ہے۔
چناں چہ شیخ الاسلام حضرت مولاناشبیر احمد عثمانی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
”بنی نوع یعنی تمام افراد انسانی کے ساتھ علیٰ العموم سلوک کرنا تو آیت کے پہلے حصہ میں آچکا تھا۔اہل قرابت کے ساتھ چوں کہ قرب واتحاد مخصوص اور بڑھاہواہے، اس لیے ان کی بدسلوکی سے اب خاص طور پر ڈرایاگیاہے۔کیوں کہ ان کے حقوق دیگر افراد انسانی سے بڑھے ہوئے ہیں… تو اب نتیجہ یہ نکلا کہ معدن وجود اورمنشائے وجود کے اتحاد کے باعث تو تمام بنی آدم میں رعایت حقوق اورحسن سلوک ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر کسی موقع میں خصوصیت کی وجہ سے اتحاد میں زیادتی ہوجائے، جیسے اقارب میں، یاکسی موقع میں شدت احتیاج پائی جائے، جیسے یتامی اورمساکین وغیرہ۔ تووہاں رعایت حقو ق میں بھی ترقی ہوجائے گی۔ ان کے علاوہ جب حکم خداوندی بھی صاف آگیا کہ ارحام کے حقوق کی رعایت اورحفاظت رکھو تو اب تو اس کی تاکید انتہا کو پہنچ گئی۔“(تفسیر عثمانی:99)
اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ داروں کے حقوق اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند احادیث مبارکہ اس حوالے سے سپرد قلم ہیں۔
٭...انسانی رشتوں میں سب سے افضل اورقوی رشتہ ماں باپ کاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں آپ ں نے اسے یوں بیان فرمایا:”(فلاں) شخص ذلیل ونامراد ہو جائے۔ (فلاں) شخص ذلیل ونامراد ہوجائے۔(فلاں) شخص ذلیل ونامراد ہو جائے۔“ آپ ں سے پوچھا گیا :”یارسول اللہ ! ( آپ کی مراد) کون ہے؟“ جواب میں آپ ں نے فرمایا :” وہ شخص (میری مرادہے)جو بڑھاپے کی حالت میں اپنے والدین کو پائے یا ان میں سے کسی ایک کو، (لیکن) پھر بھی(ان کی خدمت کرکے ) جنت میں داخل نہ ہوسکے۔“(مشکوٰة:418)
٭...حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:”جو شخص یہ پسند کرتاہو کہ اس کے رزق میں برکت اور اس کی موت میں تاخیر ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی (اختیار) کرے۔“(مشکوٰة:419)
٭...حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کہتے ہوئے سناکہ آپ علیہ السلام فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :”میں اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم کو پیدا کیا اوراپنا نام اس کے لیے چنا۔ (اب) جو اس کو جوڑے گا میں اسے جوڑوں گااور جواسے توڑے گا میں اسے (اپنی رحمت خاصہ سے ) جدا کردوں گا۔“(مشکوٰة:420)
٭...حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول نے عرض کیا:”یارسول اللہ!میرے چند رشتہ دارہیں جن کے ساتھ میں صلہ رحمی کا معاملہ کرتاہوں۔(لیکن) وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتاہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔میں ان کی(ایذارسانی) پر برداشت وتحمل اورعفوودرگزر کا مظاہرہ کرتاہوں (مگر)وہ میرے ساتھ (اورزیادہ ) اجڈ پن دکھاتے ہیں۔“ آپں نے فرمایا:”اگر بات ایسی ہی ہے جیسے آپ بتارہے ہیں تو گویا آپ ان کے منہ میں خاک ڈال رہے ہیں اور جب تک آپ حسن سلوک پر قائم رہیں گے ،اللہ کی طرف سے ایک مددگار(فرشتہ) آپ کے ساتھ رہے گا۔“(مشکوٰة:419)
٭...حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔(مشکوٰة:419)
٭...حضرت ابوبکرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کوئی گناہ ایسا نہیں ،جس کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ آخرت میں عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی جلد سزا دیتے ہوں سوائے ظلم اورقطع رحمی کے(یعنی ان دونوں کی نقد سزادنیا میں بھی ملتی ہے اورآخرت کا عذاب اپنی جگہ ہے)۔(مشکوٰة:420)
نکات ومعارف
ابتدائے سورت میں تقویٰ کا حکم کیوں دیا گیا؟
اس بارے میں حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”اس سورت کے شروع میں اپنوں سے میل جول یعنی حقوق العباد سے متعلق احکام ہیں۔ مثلاً یتیموں کے حقوق، رشتہ داروں اوربیویوں کے حقوق وغیرہ۔لیکن کچھ حقوق تو ایسے ہیں جو قانون انضباط میں آسکتے ہیں اور ان کی ادائی بہ زور قانون کرائی جاسکتی ہے، جیسے عام معاملات بیع وشرا ،اجارہ ومزدوری کے ذریعے پیداہونے والے حقوق، جو باہمی معاملات اور صلح کے ذریعے طے ہوسکتے ہیں۔اگر کوئی فریق مقررہ حقوق کی ادائی میں کوتاہی کرے تو بہ زور حکومت بھی دلوائے جاسکتے ہیں۔لیکن اولاد،والدین، شوہر اور بیوی، یتیم بچے جو اپنی تحویل میں ہوں اور دوسرے رشتہ دار ،ان کے باہمی حقوق جو ایک دوسرے پر عائد ہوتے ہیں،ایسی چیزیں ہیں جو کسی کانٹے میں تولی نہیں جا سکتیں۔معاہدات کے ذریعے بھی ان کی تعیین مشکل ہے۔ لہٰذا ان کی ادائی کے لیے بجز خوف خدا اورخوف آخرت کے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں، جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جاتاہے۔اورحقیقت میں یہ تقویٰ کی طاقت،حکومت اورقانون کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے اس سورت کو امربالتقویٰ سے شروع فرمایا۔“(معارف القرآن:278/2)
پیدائش کی تین صورتیں
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”ا س آیت میں پیدائش کی تین صورتوں کابیان ہے۔ ایک تو جان دار کا بے جان سے پیدا کرنا۔ کیوں کہ آدم ں مٹی سے پیداہوئے ہیں۔ دوسرے جان دار کا جان دارسے بلاطریقہ توالد متعارف پیدا ہونا ۔کیوں کہ حضرت حوا حضرت آدم ں کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔اور تیسرے جان دار کا جان دار سے بہ طریق توالد متعارف پیدا ہونا،جیسا اور آدمی آدم وحوا سے اس وقت تک پیدا ہوتے آرہے ہیں۔اور فی نفسہ عجیب ہونے اورقدرت کے سامنے عجیب نہ ہونے میں تینوں صورتیں برابر ہیں۔“(بیان القرآن: 316/1)
﴿واتقوا اللہ الذی تساء لون بہ﴾:آیت مبارکہ کے مذکورہ جز کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
”تم خدا تعالیٰ سے ڈرو ،جس کے نام سے ایک دوسرے سے (اپنے حقوق کا) مطالبہ کیا کرتے ہو(جس مطالبہ کا حاصل یہ ہوتاہے کہ خداسے ڈرکر میرا حق دے دے۔سو جب دوسروں کو خدا کی مخالفت سے ڈرنے کو کہتے ہو تو معلوم ہوا کہ تم اس ڈرنے کو ضروری سمجھتے ہو تو تم بھی ڈرو)۔(بیان القرآن:315/1)
جب کہ مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدھم یوں فرماتے ہیں:
”جب دنیا میں لوگ ایک دووسرے سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو بہ کثرت یہ کہتے ہیں کہ ”خدا کے واسطے مجھے میرا حق دے دو“آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے حقوق کے لیے اللہ کا واسطہ دیتے ہو تو دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی اللہ سے ڈرو اور لوگوں کے حقوق پورے پورے ادا کرو۔“(آسان ترجمہ قرآن 246/1)
قرآن مجید کا اسلوب تربیت
﴿ان اللہ کان علیکم رقیبا﴾کے ذیل میں مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں :
”یعنی اللہ تعالیٰ تم پر نگراں ہے،جو تمہارے دلوں اور ارادوں سے باخبر ہے۔ اگر رسمی طور پر شرما شرمی ،بے دلی سے کوئی کام کر بھی لیا، مگر دل میں جذبہٴ ایثار وخدمت نہ ہوا تو قابل قبول نہیں ہے۔اس سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ وہ سب پر ہمیشہ نگراں ہے۔قرآن کریم کا یہ عام اسلوب ہے کہ قانون کو محض دنیا کی حکومتوں کے قانون کی طرح بیان نہیں کرتا۔ بلکہ تربیت وشفقت کے انداز میں بیان کرتاہے۔قانون کے بیان کے ساتھ ساتھ ذہنوں اور دلوں کی تربیت بھی کرتاہے۔“(معارف القرآن:281/2)
حاصلِ کلام
فی زمانہ مشرق ومغرب کے مابین جو تہذیبی جنگ چھڑی ہوئی ہے ، اس میں اہل مشرق کے غالب اورساکنان یورپ کے مقہور ومغلوب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ ایک نے اسلام کی آفاقی وابدی ہدایات واحکام کو سینے سے لگا رکھا ہے۔جب کہ دوسرے نے انسانیت کا جامہ اتارکر حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیاہے۔ مغربی تہذیب رشتوں کے تقدس کو کب سے خیر باد کہہ چکی ہے۔ وہاں ماں باپ ،بہن بھائی، چچا ماموں،خالہ پھوپھی کا تصور عنقاہے۔ اور ظاہرہے کہ جب خون کے ان رشتوں کا وجود ہی نہیں تو ان سے ملنے والے پیار کا احساس بھی مفقود ہے۔ مغرب اپنی خاندانی قدروں اور معاشرتی اکائیوں کو پامال کرنے کے بعد ،اب یہ چاہتاہے کہ پوری دنیا میں اس کی دجالی تہذیب کا ڈنکا بجے۔زناکو عام کیاجائے۔ خواتین کی آزادی اورمساوات کا نعرہ لگاکر انہیں شیطان کے پرفریب جال میں پھنسایاجائے۔عالم اسلام کو خدائے عزوجل کی نافرمانی کی اسی ڈگر پر لایا جائے، جس کا راہی آج وہ خود ہے۔اس طاغوتی مقصد اورمشن کو پورا کرنے کے لیے قدیم وجدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا جارہاہے۔ نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔ بسیار خرابی کے باوجود بات ابھی وہاں تک نہیں پہنچی ،جس کے لیے یہ سارا کھل کھیلا جارہاہے۔مگر اس حقیقت سے کوئی ہوش مندانکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے آج کے اسلامی معاشرے میں رشتوں کا ادب واحترام ،عظمت ومحبت اوروارفتگی وفریفتگی بری طرح پامال ہورہی ہے۔ اولاد ماں باپ کی نافرمان بن چکی ہے۔ بہن بھائی باہمی حسد وبغض میں مبتلاہیں۔ رشتہ دار ایک دوسرے کوکاٹ کھانے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ احکام دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم ابھی اور اسی وقت یہ عزم وارادہ کرلیں کہ شریعت مطہرہ کے ہرہر حکم پر دل وجان سے عمل کریں گے ۔اللہ رب العالمین کاڈر وخوف پیدا کرکے اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل پیراہوں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ذہنی اضطراب اورنفسیاتی ہیجان میں کمی واقع نہ ہو۔اور ہم طاغوتی کھائی میں گرنے سے بچ جائیں۔ ضرورت ہے صرف پختہ نیت اور حوصلے کی ۔اللہ تعالیٰ سے نصرت وامداد طلب کرنے کی۔ جو آگے قدم بڑھائے گا رب کی شان کریمی کو اپنے ہم قدم پائے گا۔
وماعلینا الا البلاغ المبین