الله کی طرف توجہ
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب نے رمضان المبارک1434ھ میں جامعہ فا روقیہ کراچی کی جامع مسجد میں مفتی معاذ خالد صاحب اور مولانا عمار خالد صاحب کے تراویح میں ختم قرآن کے مبارک موقع پر ایک جامع بیان ارشاد فرمایا اور پھر اسے خود تحریر فرمایا، اب قارئین الفاروق کی خدمت میں پیش ہے۔ (مدیر)
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین والصلوٰةو السلام علی سید الرسل وخاتم النبیین وعلی آلہ واصحابہ وازواجہ وامتہ ومن تبعہم باحسان الی یوم الدین․
﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَان وقال الله سبحانہ وتعالیٰ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْن﴾․
آج یہ بیان تراویح میں قرآن کریم کے ختم پر ہو رہا ہے۔ قرآن کریم الله تبارک وتعالیٰ کا مبارک کلام ہے۔ الله بزرگ وبرتر نے اسکی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم محفوظ ہے جب کہ دوسری آسمانی کتابیں محفوظ نہیں ہیں الله پاک نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری خود نہیں لی ان امتوں کو حفاظت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور وہ اس کو نبھا نہ سکیں، قرآن کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ اس کی تراویح میں تلاوت بھی ہے پوری دنیا میں جہاں مسلمان آباد ہیں قرآن تراویح میں پڑھاجاتا ہے۔ تراویح کے علاوہ بھی رمضان میں قرآن کی تلاوت کا رواج دوسرے مہینوں سے بہت زیادہ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو تلاوت کے اعتبار سے دوسری تمام کتابوں پر زبردست فوقیت حاصل ہے۔
ایک اہم بات کا لحاظ بہت ضروری ہے۔ تراویح مستقل سنت ہے اور تراویح میں قرآن کا پڑھنا یا سننا مستقل سنت ہے۔ اگر تراویح میں قرآن کریم پڑھنے یا سننے کے بعد تراویح کی نماز نہ پڑھی جائے تو اس کی اجازت نہیں۔ کئی حضرات اس معاملہ میں غلطی کرتے ہیں اور ختم کے بعد تراویح چھوڑ بیٹھتے ہیں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ تراویح بیس رکعات ہیں بعض حضرات کو دیکھا کہ آٹھ رکعات کے بعد چلے جاتے ہیں۔ یہ درست نہیں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی الله عنہم، محدثین، فقہاء اورمفسرین نے تراویح بیس رکعات پڑھی ہیں مکہ مکرمہ میں مسجد حرام میں ، مدینہ منورہ میں مسجدنبوی میں پوری دنیا میں تراویح بیس رکعات ہی پڑھی جاتی ہیں آٹھ پر اکتفا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور جمہور اہل اسلام کے خلاف ہے۔
امت کے پاس قرآن کریم محفوظ شکل میں موجود ہے اور یہ الله تبارک وتعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کا عمل بھی جار ی ہے۔ اسی طرح اس کے مضامین کی تعلیم کا سلسلہ بھی برقرار ہے ۔ ترجمے اور تفسیریں بھی لکھی جارہی ہیں ۔ قراء ات اور تجوید کی تعلیم بھی ہو رہی ہے ۔ یہ سارے ہی سلسلے مبارک ہیں اور ضروری بھی ہیں۔
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے ۔ زندگی اور دنیا وآخرت کو کامیاب بنانے کے لیے قرآن کے احکام پر عمل لازم اور ضروری ہے۔ جب ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق نظر نہیں آتے۔ ظلم وزیادتی، فواحش ومنکرات، حرص وہوس، مال دولت کی لالچ، جاہ اور منصب کی پرستش کا بازار گرام ہے جس سے ہمارا حال تباہ ہو کررہ گیا ہے۔
تجارت ہو یا زراعت، صنعت ہو یا وزارت، ہر شعبہٴ زندگی میں ہماری توانیاں بے دریغ صرف ہو رہی ہیں تاجر رات دن تجارت کی ترقی کے لیے سرگرداں ہے۔ زمیندار ہر وقت اپنی زمینداری کو ترقی دینے کی فکر میں لگا ہے ۔ کارخانہ دار چاہتا ہے کہ ایک کارخانہ چل رہا ہے تو او رایک شروع کر دوں، حکومت و وزارت کیشوقینوں کا بُرا حال تو سب پر سبقت لے گیا ہے۔ فیا للاسف… یہ تمام چیزیں دنیوی زندگی کے لیے ضروری ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن شریعت نے ان میں سے ہر ایک کے لیے طریقہٴ کار اور ہدایت فراہم کی ہے ۔اس کی پابندی ضروری ہے اسی صورت میں یہ خلق کے لیے مفید اور کار آمد ہوتی ہیں۔ شرعی ہدایات کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ عذاب بن جاتی ہیں اور ہلاکت کا سبب بنتی ہیں جیسا کہ اب بنی ہوئی ہیں۔
آپ اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ سب مسلم غیر مسلم چیزوں پر محنت کر رہے ہیں اور یہ محنت شب وروز ہو رہی ہے۔ اس کو محدود رکھنے کا تصور باقی نہیں بلکہ یہ سلسلہ لا محدود ہے ۔
یہ حقیقت بھی واضح اور ظاہر ہے کہ اعمال پر محنت کا رواج امت میں باقی نہیں رہا۔ دکان پر محنت کرنے والا نماز پڑھتا ہی نہیں ( اکثریت کا حال یہی ہے ) اور کچھ الله کے بندے نماز پڑھتے ہیں تو بعض تو دکان ہی پر پڑھ لیتے ہیں۔ مسجد میں جانے سے کاروبار کا حرج ہوتا ہے۔ جو مسجد آتے ہیں، آخر میں آتے ہیں اور پہلے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اعمال کی قدر وقیمت کا یقین باقی نہیں۔
نماز کی مثال عرض کی ہے، تمام اعمال صالحہ کا حال یہی ہے۔ اسی طرح چیزوں پر ریسرچ ہو رہی ہے۔ چوں کہ چیزوں کو قیمتی سمجھ رکھا ہے، اعمال خیر کی اہمیت ذہن سے نکل گئی اس لیے اس پر ریسرچ نہیں ہو رہی۔ نماز میں کتنے فائدے ہیں؟ الله کے ذکر سے کیا ملتا ہے ؟ مسواک کرنا کتنا قیمتی عمل ہے؟ ایمان لانا اور اسلامی احکام پر عمل کتنا ضروری ہے ؟ سچ بولنے اور، امانت میں خیانت نہ کرنے کی کیا برکات ہیں ؟ وغیرہ۔ ادھرتوجہ نہیں۔
ممکن ہے، کسی کو یہ خیال ہو کہ زندگی کا قیام چیزوں سے وابستہ ہے ان کی محبت، اس پر محنت ان پر ریسرچ کے بغیر چارہ نہیں۔ یہ خیال درست ہے۔﴿قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ﴾․(سورہ توبہ، آیت:24)
اس آیت مبارکہ میں باپ ، بیٹے ، بھائی، بیوی، خاندان، مال ومتاع، تجارت، گھر تمام محبوب چیزوں کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ ان کی محبت الله ورسول الله صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ان کی محبت ، محنت، ریسرچ پر اعتراض نہیں۔ الله ورسول کی محبت اور ان کے احکام کی عظمت چیزوں کی محبت و عظمت پر غالب ہو گی تو نقصان نہیں ہو گا ۔اور چیزوں کی محبت اور عظمت غالب ہو گی تو تباہی ہو گی، فساد پھیلے گا جیسا آج کل ہو رہا ہے۔ الله تو ان ساری چیزوں کے خالق ہیں تو چیزوں کے مقابلے میں الله کا حق محبت کے باب میں مقدم ہے۔
چیزوں کا استعمال صحیح بھی ہوتا ہے غلط بھی ، صحیح استعمال سے فائد ہ ہوتا ہے، غلط سے نقصان۔ صحیح اورغلط کی پہچان نبی ں نے کرائی ہے، اس لیے چیزوں کی حرمت پر نبی علیہ السلام کی محبت کو غالب رکھنا ضروری ہو گا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من یا ثور والدہ اجمعین“․ تم میں کسی کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہو گا جب تک اس کی محبت اولاد، ماں باپ اور سب انسانوں کی محبت کے مقابلے میں میری محبت زیادہ نہیں ہو گی۔
قرآن کریم ہمارے پاس ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے۔ رب العالمین نے اس میں بہت سے انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے واقعات تکرار کے ساتھ تفصیل سے بیان کیے ہیں تاکہ ہم ان سے راہ نمائی لیں۔ حضرت نوح ں کا ذکر کئی جگہ ہے او رایک پوری سورت ان کے قصے کے بیان میں قرآن کریم میں موجود ہے۔ فرمایا ہے :﴿قَالَ رَبِّ إِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْْلاً وَنَہَاراً ،فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَائِیْ إِلَّا فِرَاراً ،وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَاراً ،ثُمَّ إِنِّیْ دَعَوْتُہُمْ جِہَاراً ، ثُمَّ إِنِّیْ أَعْلَنتُ لَہُمْ وَأَسْرَرْتُ لَہُمْ إِسْرَاراً ،فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً ، یُرْسِلِ السَّمَاء عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً ،وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً﴾․(سورہ نوح، آیت:5تا12)
رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں نوح ں قوم کو الله کی طرف بلاتے رہے۔ اس شفقت و دل سوزی کے باوجود قوم میں نفرت اور بیزاری بڑھتی گئی۔ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے کہ نوح ں کی آواز نہ سنائی دے کبھی اپنے آپ کو کپڑوں میں پیسنے لگتے کہ وہ ہماری صورت اور ہم ان کی صورت نہ دیکھ سکیں مسلسل ضد اور غرور میں مبتلا رہے ، مجمعوں میں، تنہا ئی میں، صاف صاف اوراشاروں میں بھی حضرت نوح ں نے بات کی اور استغفار کی دعوت دی۔ غرض نصیحت کا کوئی عنوان ایسا نہیں تھا جو نوح ں نے اختیار نہ کیا ہو۔ یہ بھی سمجھایاکہ ایمان کی برکت اور شرک سے توبہ کے ذریعے قحط سالی دور ہو جائے گی، موسلا دھار بارش ہو گی۔ عورتیں جو کفر وشرک کی وجہ سے بانجھ ہو رہی ہیں، لڑکے جننے لگیں گی۔ کھیت او رباغ خوب سیراب ہوں گے، ضرورت کی ہر چیز افراط سے پیدا ہو گی ۔
یہ لوگ کسی طرح باز نہ آئے اور نوح ں کو ایذا وتکلیف پہنچاتے رہی۔ برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے۔ یہ سلسلہ ساڑھے نو سو برس تک چلا ہر ایک اپنی اولاد در اولاد کو وصیت کر جاتا تھا کہ نوح ں کے فریب میں نہ آئے اور آبائی دین پر جمارہے۔
﴿مِمَّا خَطِیْئَاتِہِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَاراً فَلَمْ یَجِدُوا لَہُم مِّن دُونِ اللَّہِ أَنصَاراً ،وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً ،إِنَّکَ إِن تَذَرْہُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوا إِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً ،رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیْْتِیَ مُؤْمِناً وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِیْنَ إِلَّا تَبَاراً﴾․ (سورہ نوح، آیت:28-25)
اس سر کشی اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے گناہوں کی پاداش میں پانی میں غرق کر دیے گئے او رآگ میں داخل کر دیے گئے۔بظاہر پانی میں ڈبوئے گئے اور فی الحقیقت برزخ کی آگ میں پہنچ گئے ۔ نوح ں نے کہا، اے رب نہ چھوڑیو زمین پر کافروں کا ایک گھر بسنے والا۔ اگر آپ ان کو چھوڑیں گے تو یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے اور ڈھیٹ کا فرجنیں گے۔ اے رب معاف کر مجھ کو ، میرے ماں باپ کو اور جو آئے میرے گھر ایمان دار اور سب مومن مرد اور عورتوں کو اورگناہ گاروں کی بربادی کو بڑھاتا رہ۔
نوح ں کی قوم اپنے بد انجام کو پہنچی۔ نوح ں قوم کی تباہ کن حالت سے مایوس ہوئے اور واضح طور پر جب یہ یقین پختہ ہو گیا کہ یہ لوگ سدھرنے والے نہیں تو یہ دعا کی۔
نوح علیہ السلام کے اس تفصیلی قصے میں قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ الله کی نافرمانی اور پیغمبر کی مخالفت کا کیا انجام ہے؟ یہ بھی واضح ہوا کہ الله کے احکام کے مقابلے میں سرکشی اور طغیان اختیار کرنے پر قوم کی کثرت یا قومی اتحاد الله کے غضب سے بچا نہیں سکتا۔
نوح ں نے دعا کی ،الله تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا۔ طوفان آیا سب اس میں غرق ہو گئے۔ کوئی ذریعہ، کوئی طاقت، کوئی فوج نہ بچا سکی۔ نوح ں او ران کے ساتھیوں کو الله نے محفوظ رکھا اور پھرانہی کے ذریعے دوبارہ دنیا کو آباد کیا۔
ایک دوسرا قصہ قرآن کریم نے بار بار موسی ں اور فرعون کا ذکر کیا ہے ۔سورہ نازعات میں ہے :﴿ہَلْ أتَاکَ حَدِیْثُ مُوسَی ، إِذْ نَادَاہُ رَبُّہُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی ،اذْہَبْ إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی ،فَقُلْ ہَل لَّکَ إِلَی أَن تَزَکَّی ، وَأَہْدِیَکَ إِلَی رَبِّکَ فَتَخْشَی ، فَأَرَاہُ الْآیَةَ الْکُبْرَی ، فَکَذَّبَ وَعَصَی ، ثُمَّ أَدْبَرَ یَسْعَی ،فَحَشَرَ فَنَادَی ، فَقَالَ أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلَی، فَأَخَذَہُ اللَّہُ نَکَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَی،إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَعِبْرَةً لِّمَن یَخْشَی﴾․ (سورہ نازعات، آیت:26-15)
موسی ں کو فرعون کے پاس جانے ، ایمان کی دعوت دینے اور دلائل قاہرہ کے ذریعے اس کو اور اس کی قوم کو قائل کرنے کے لیے فرمایا موسی ں گئے ہیں، دعوت دی، معجزات کے ذریعے فرعون کو قائل کرنے کوشش کی لیکن سب کچھ سمجھنے کے باوجود فرعون نے، اس کی قوم نے تکبر اور غرور کا مظاہرہ کیا۔ الله بزرگ وبرتر نے ان کو دریائے نیل میں غرق کر دیا۔ یہاں بھی الله ورسول کے احکام سے بغاوت کرنے والے بظاہر پانی میں غرق ہوئے ہیں اورحقیقت میں بزرخ کی آگ میں ڈالے گئے ہیں۔ النار یعرضون علیہا غدوا وعشیا․
فرعون او راس کی قوم طاقت ور ہے ، موسی ں کی قوم بنی اسرائیل کم زور ہے۔ طاقت ورکمزور پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ کمزور ظلم کی چکی میں پس رہا ہے ۔ظلم کے خلا ف نہ احتجاج ہو رہا ہے ۔نہ خلاصی کی صورت ہے۔ فرعون بادشاہ ہے، بنی اسرائیل اس کی رعیّتمیں رہ رہے ہیں۔
الله پاک جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس نے اس سرکشی پر فرعون کی بادشاہت کو دریائے نیل میں غرق کر دیا۔ نافرمانوں کو نہ طاقت سے فائدہ حاصل ہوا نہ بادشاہت سے، نہ ان کے قومی اتحاد او رکثرت سے البتہ الله کے نبی کی پیروی کام آئی اور بنی اسرائیل کو فرعونی عذاب سے نجات ملی اور فرعون کی ہلاکت کا خود مشاہدہ بھی ہوا۔
ابراہیم ں کا واقعہ بھی قرآن کرنے ذکر کیا ہے۔ اہلیہ ہاجرہ رضی الله عنہا اور شیر خوار اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ رہے ہیں جہاں نہ آدم نہ آدم زاد ، نہ زندگی نہ زندگی کا کوئی سہارا ۔
﴿إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِندَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُواْ الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُون﴾․ (سورہٴ ابراہیم، آیت:37)
اس قصے میں حقائق کا ایک جہاں واقع ہے ۔اس وقت سے لے کر اب تک اور نہ جانے کب تک ان حقائق سے پردہ اٹھنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت ابراہیم ں کو الله تبارک وتعالیٰ نے احکام الہی کی اطاعت وتسلیم کی ضو کس پیمانے پر عطا کی تھی جس کے آثار وبرکات سے استفادے کا سلسلہ محیر العقول انداز میں جاری ہے اور برکتیں ہیں کہ ان میں دن رات اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
اس لیے ہمیں الله ہی سے اپنا معاملہ درست رکھنا چاہیے۔ اس کے احسانات کا استحضار رہے، اس کے احکام کی بجا آوری میں غفلت اور سستی ہر گز نہ ہو اور اس کے وعدوں پر یقین کامل ہو۔
معاف فرمائیں آج یہ یقین ہمارے اندر نہیں رہا اور اس سے محروم رہ کر ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر آج یہ اعلان ہو اور ہمیں یقین بھی ہو کہ اعلان کے مطابق عمل ہو گا۔اعلان یہ کہ اگر کوئی آدمی قرآن حفظ کرے گا تو اس کو ایک لاکھ روپیہ انعام دیا جائے گا تو آپ یقین کریں جتنے آدمی اس مجمع میں موجود ہیں ہر ایک چاہے گاکہ یہ انعام حاصلکرے اور اگر یہی اعلان ہواور انعام میں لاکھ روپے کے بجائے وعدہ جنت کا ہو تو کوئی بھی اس انعام کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا نظر نہ آئے گا۔
یہ فرق اس لیے ہے کہ پہلا انعام دنیا کا ہے اور دینے والا بھی دنیا کا آدمی ہے اور دوسرا انعام آخرت کا ہے اور الله دینے والے ہیں اور الله کے وعدوں پر یقین نہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کی اشاعت او رکفر کی تردید کے لیے محض دعا پر اکتفاء نہیں کیا ظاہری اسباب بھی اختیار کیے لیکن نظر ، اعتماد اور یقین الله ہی پر رکھا۔ چناں چہ الله نے بھرپور مدد کی اور آپ کی نصرت اور مدد کے لیے فرشتے بھیجے غزوہ بدر، خندق او رحنین کے واقعات قرآن کریم میں موجود اور اس پر گواہ ہیں۔
رمضان میں الله تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں رحمت عروج پر ہوتی ہے، جنت کے دروازے کھلے رہتے ہیں ، دوزخ کے دروا زے بند کر دیے جاتے ہیں۔ سرکش شیا طن کوبیٹریاں لگا دی جاتی ہیں ، طاعت اور عبادات کے ثواب میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ پورا ماحول روحانیت کا ہوتا ہے۔ اس صورت میں ضرور بالضرور ہمیں اس میں الله سے اپنی مغفرت کا فیصلہ کر اہی لینا چاہیے۔ اگر رمضان اس کے بغیر گزر گیا تو یہ بڑی محرومی ہو گی۔
ہم بھی بارگاہ رب العزت میں درخواست کریں ، بار الہٰا ہم گنہگار ہیں، نفس وشیاطین انس وجن کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں، ہمیں گناہوں سے سخت نفرت ہے ہم تمام گناہوں سے محفوظ رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی گناہ کرتے ہیں، آپ ہماری مدد فرمائیں۔ ہم آپ کی مدد کی آپ سے بھیک مانگتے ہیں۔ آپ تو رحمان ورحیم ہیں، ہم پر رحم فرمائیں۔ ہم دعا کررہے ہیں؛ دعا کی قبولیت کی شرائط موجود نہیں ہیں لیکن آپ کی رحمت ، رمضان کی برکات کے پیش نظر مایوس نہیں۔ رحمت حق بہانہ می جوید بہانمی جوید کے پیش نظر قبولیت ہی کی امید رکھتے ہیں۔ دعا کا خوب اہتمام کریں۔ اس میں کوتاہی ہر گز نہ ہو۔ الله پاک ہماری سب دعائیں قبول فرمائیں آمین ثم آمین۔
آخر میں دینی خدمات انجام دینے والے دوستوں سے حضرت اقدس حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی کی ایک وصیت پیش خدمت ہے، ”رفیق بنیں، فریق نہیں“ اپنے کام کے ساتھ دوسروں کے نیک کام میں جس حد تک ممکن ہو، تعاون کریں۔ اس کی مخالفت نہ قولاً کریں نہ فعلاً ۔اس سے فساد اور انتشار پھیلتا ہے، غیبت اور بہتان تراشی کا دروازہ کھلتا ہے، اتحاد امت کو نقصان پہنچتا ہے، ہماری توانائیاں فلاح وبہبود کے بجائے تباہی وبربادی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق مرحمت فرمائیں۔آمین ثم آمین!