Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1434ھ

ہ رسالہ

5 - 17
خشوع کی حقیقت اور حصول کا طریقہ
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

”الاحسان أن تعبدالله کانک تراہ، فان لم تکن تراہ، فانہ یراک“․ ( صحیح بخاری، رقم الحدیث:50)
ارشاد فرمایا: جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ، احسان یہ ہے کہ تم الله تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو ۔ اگر تم اس کو نہیں دیکھتے پس تحقیق وہ تم کو دیکھتا ہے۔

تعلیم دین
یہ ایک حدیث شریف کا ٹکڑا ہے او رجواب ہے ایک سوال کا ، جو حضرت جبرئیل ں نے خدمت نبوی صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہو کر کیا تھا، جس کا پورا قصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اس حالت میں کہ ہم ایک دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک موجود تھے۔ ناگاہ ہم پر ایسا شخص ظاہر ہوا، جس کے کپڑے نہایت سفید او ربال بہت کالے تھے۔ اس پر سفر کا نشان تو معلوم نہیں ہوتا تھا اور ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا بھی نہ تھا۔ یہاں تک کہ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مل کر با ادب بیٹھ گیا اور پوچھنے لگایا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم)! اسلام کس کو کہتے ہیں؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اعمالِ اسلامیہ کو ذکر فرمایا کہ : خدا کے سوا کسی کو معبود نہ جاننا اور محمد صلی الله علیہ وسلم کے رسول الله ہونے کی تصدیق کرنا، نماز پڑھنا، زکوٰة دینا، رمضان شریف کے روزے رکھنا اور استطاعت ہونے پر بیت الله کا حج ادا کرنا۔ یہ سن کر اس شخص نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق کی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سچ ارشاد فرماتے ہیں ۔ ہم لوگوں کو تعجب ہوا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھتا بھی ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔

پھر اس شخص نے سوال کیا کہ ایمان کس کو کہتے ہیں؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے عقائد اسلامیہ کو ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ کی تصدیق کرنا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور قیامت کے دن پر ایمان لانا اور تقدیر کے خیر وشر پر ایمان لانا۔

اس شخص نے اس کو بھی سن کرکہا کہ آپ سچ ارشاد فرماتے ہیں۔

پھر اس نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ احسان کس کو کہتے ہیں ؟ ارشاد ہوا کہ: ”ان تعبدالله کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک“ یعنی احسان یہ ہے کہ تم الله تعالیٰ کی اس طرح سے عبادت کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، کیوں کہ اگر نہیں دیکھتے ہو اس کو ، تو پس تحقیق وہ تم کو دیکھتا ہے۔ اس سوال کے علاوہ اس شخص نے اور سوال بھی کیے تھے جو پوری حدیث میں مذکور ہیں اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سب کے جواب بخوبی ارشاد فرمائے تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے چلے جانے کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! تم جانتے بھی ہو یہ سوال کرنے والے کون تھے۔ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ”الله ورسولہ اعلم“ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فانہ جبرئیل، اتاکم یعلمکم دینکم“ یعنی یہ سوال کرنے والے جبرئیل ں تھے۔ تمہارے پاس اس لیے آئے تھے تا کہ تم کو تمہارا دین سکھلا دیں۔

آداب سوال
وجہ اس آنے کی یہ ہوئی تھی کہ الله تعالیٰ نے صحابہ کو زیادہ پوچھ گچھ سے منع فرمایا تھا، لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امور دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو پیش آئیں ، واقع ہوں۔ ان کا تو پوچھنا ضروری ہے ۔ اس سے ممانعت نہ تھی۔ دوسری یہ کہ محض فرضی صورتیں نکال نکال کر احتیاطاً پوچھ رکھنا ،اگر چہ ابھی واقع نہ ہوئی ہوں۔ جیسے اب بھی ایک تو عام لوگ ہیں ۔ ان کو تو یہ چاہیے کہ جب کوئی امر پیش آوے اس وقت دریافت کر لیں یا ایسا کوئی امر جس کا واقع ہونا غالب ہو، وہ دریافت کر لیں، یہ نہیں کہ فرضی بعید الوقوع صورتیں دریافت کرکرکے پریشان کریں۔ البتہ طلباء، جن کا کام ہے مسائل کی تحقیق کرنا، وہ اگر دریافت کریں تو مضائقہ نہیں او ربعض لوگوں کو جو یہ عادت ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ مولویوں کو دق کرنے کے لیے ایسی ایسی باتیں پوچھا کرتے ہیں کہ جن کی کوئی صورت نہیں، یہ سب بے کار وفضول ہے، صحابہ کو جو سوال سے الله تعالیٰ نے منع فرما دیا تھا ،اس کی کئی وجوہات ہیں۔

صحابہ کو کثرتِ سوال سے ممانعت کی وجہ
اول تو یہ کہ ایسی فرضی باتیں دریافت کرنا خلافِ ادب تھا۔

دوسرے یہ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ضروری بات خود ہی بیان فرمادیا کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد:”انما بعثت معلماً“ ”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں“ یہ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرضِ منصبی ہی تھا اور خود آپ صلی الله علیہ وسلم اعلیٰ درجہ کی شفقت رکھتے تھے، ضرورت کو سمجھتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم بغیر پوچھے بتلا دیا کرتے تھے، ایسی حالت میں سوالات کرتے رہنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، جس طرح اگر کوئی طبیب حاذق شفیق ہو۔ اس نے نبض دیکھ لی، ضروری امور دریافت کرکے تشخیص کر لی، نسخہ لکھ دیا۔ پرہیز بتلا دیا، سارے ضروری امور سے خود ہی غایت شفقت کے باعث آگاہ کر دیا تو پھر ایسے شخص سے دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ گئی؟!

تیسرے یہ بھی مصلحت ہو سکتی ہے کہ بعض منافقین گھڑ گھڑ کر صورتیں پوچھا کرتے تھے غرض اس سے محض دق کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی منع کر دیا، تاکہ منافقین کو آڑ نہ ملے۔

جاہلانہ سوال
چناں چہ خود مجھ سے ایک شخص نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ دو شخص چلے جاتے تھے او ران کے ہمراہ ایک عورت تھی ۔ ایک شخص اس کا خاوند تھا دوسرا اس کا بھائی، اتفاق سے چوروں نے دونوں کو قتل کر ڈلا، سر تن سے جدا ہو گئے وہ رونے لگی۔ اتفاق سے ایک درویش کامل کا ادھر سے گزر ہوا۔ واقعہ دریافت کرنے کے بعد اس عورت سے کہا کہ تو دونوں کے سر دھڑ سے لگا دے۔ اس نے خاوند کے دھڑ کے ساتھ بھائی کا سر اور خاوند کا سر بھائی کے دھڑ سے لگا دیا۔ انہوں نے دعا کی۔ دونوں زندہ ہو گئے ۔ تو بتلاؤ کہ وہ عورت کس کو ملے گی ؟ میں نے اس سے کہہ دیا کہ جناب مجھے نہیں معلوم ایسی باتوں کے پوچھنے سے غرض یہ ہوتی ہے کہ جب یہ جواب نہ دے سکیں گے تو ہم کہیں گے کہ ہم نے ایسی بات پوچھی کہ اس کا جواب عالم سے بھی نہیں آیا۔ ہم ایسے بڑے ہیں، ایسے ذہین اور بس ۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ بعض باتیں آسان ہوتی ہیں اور پوچھنے کی بدولت سخت ہو جاتی ہیں ، چناں چہ جب حج فرض ہوا تو ایک صحابی نے عرض کیا ”أفی کل عام یا رسول الله؟“ آپ نے کچھ دیر سکوت فرمایا ، پھر ارشاد فرمایا اگر میں ”نعم“ کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا اور تم لوگوں سے نہ ہو سکتا، مصیبت میں پڑ جاتے اور آپ نے ارشاد فرمایا: ”ذرونی ماترکتکم“ یعنی مجھ کو چھوڑے رکھو، جو مناسب سمجھوں گا اس سے تم کو آگاہ کر دیا کروں گا۔ تم کھود کھود کر نہ پوچھا کرو ۔ یہ وہ مصلحتیں تھیں۔ جو ممانعت سوال کی باعث تھیں اور اس وقت میرے خیال میں آئیں، ممکن ہے کہ اور بھی مصلحتیں ہوں۔ بہرحال! ممانعت سوال کی وجہ سے صحابہ رضی الله عنہم دریافت کرنے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ بعض امور ان کے خیال میں آتے ہوں گے، لیکن اس میں تردد ہو جاتا ہو گا کہ نامعلوم یہ باتیں ضروری ہیں یا نہیں؟ ان کا پوچھنا بے ادبی تو نہیں ہے؟ اس لیے ڈر کے مارے نہ پوچھ سکتے تھے۔ یہ بھی ایک مرتبہ ہے، جو حاصل کرنے کے قابل ہے کہ جودل میں کھٹکے اسے ترک کر دیا جاوے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے”دع مایریبک الی مالا یریبک“ یعنی جس چیز سے تمہیں کھٹکا ہو اسے چھوڑ کر ایسی چیز اختیار کرو جس سے کھٹکا نہ ہو۔ پس خدائے تعالیٰ نے جبرئیل ں کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پوچھیں گے تو صحابہ کو بہت سے دین کی باتیں معلوم ہو جائیں گی۔

ترقی او راسلام
اب یہ سمجھیے کہ میں نے اس وقت اس لیے احسان کے بیان کو اختیار کیا ہے کہ اس کی بڑی ضرورت ہے، لوگ اس سے بالکل غافل ہو رہے ہیں، احسان کے متعارف معنی جواردو میں مشہور ہیں، وہ یہاں مراد نہیں، یہ عربی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں اچھاکرنا اور یہاں مراد ہے عبادت کو اچھا کرنا۔

اب دیکھیے! اول تو لوگ عبادت ہی سے بھاگتے ہیں ۔ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، دنیاوی کاموں میں دن رات لگے رہتے ہیں ۔ ذرا ذرا سی باتوں کے لیے مشقت اٹھاتے ہیں ۔ خصوصاً اگر تھوڑی سی بھی دنیاوی امید ہوتی ہے تو بڑی بڑی محنتیں کرتے ہیں او رمشقتیں اٹھانے میں دریغ نہیں کرتے، لیکن عبادت میں کوتاہی کرتے ہیں اور دنیا طلبی میں سرگرم ہیں ۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ اس کی ( یعنی دنیا طلبی کی ) اور ترغیب دی جاتی ہے کہ جلسے ہوتے ہیں ، کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں اور کوشش ہے کہ خوب مال ودولت کی حرص بڑھ جاوے، ہویٰ اور ہوس میں ترقی ہو ۔ دن رات ترقی ترقی کی پکار ہو رہی ہے۔ ہویٰ وہوس کا نام بدل کر ترقی رکھ دیا ہے۔ آخر اس سے مطلب کیا ہے ؟ یہی ناکہ مال خوب حاصل کیا جاوے ۔ مکان بھی نہایت عالی شان ہو۔ کپڑے بھی نہایت قیمتی ہوں۔ اسباب بھی بیش بہا ہوں ۔ غرض کہ دنیاوی عیش وسامان جمع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاوے، چاہے دین رہے یا جائے۔

ترقی کے بارے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا فیصلہ
لیکن یہ بھی معلوم رہے کہ ترقی کا مسئلہ حضور سرور عالم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوچکا ہے، آپ اس کا فیصلہ بھی فرماچکے ہیں، جس کا نہایت معتبر اور سچا واقعہ اس طرح پر ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله عنہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے ۔ آپ بالاخانے پر تشریف رکھتے تھے ۔ وہاں صرف ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی، آپ اس پر لیٹے ہوئے تھے۔ جسم شریف پر چٹائی کے نشان بن گئے تھے اور سرہانے کی جانب کچھ کچے چمڑے لٹک رہے تھے۔ پائنتی کی جانب کچھ ببول کی پتیاں پڑی ہوئی تھیں، تاکہ ان چمڑوں کو ان سے دباغت دے لیا جائے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ اس حالت کو دیکھ کر رونے لگے۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور عرض کرنے لگے کہ یا حضرت! قیصر اور کسریٰ وغیرہ، جو شرک وکفر میں مبتلا ہیں، خدا کی عبادت نہیں کرتے، وہ تو چین وآرام سے گزاریں اور آپ اس تنگی کی حالت میں بسر کریں! آپ دعا فرمائیے کہ خدا تعالیٰ آپ کی امت کو وسعت عنایت کریں۔ یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کا ادب تھا کہ امت کی وسعت کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا ”افی شک انت یا ابن الخطاب؟“ کیا اے عمر بن خطاب! تم اب تک شک ہی میں پڑے ہوئے ہو؟ ”اولئک عجلت لھم طیباتھم فی الحیٰوة الدنیا“ (صحیح بخاری رقم الحدیث:2288) ان کو لذیذ چیزیں دنیا میں جلدی سے مل گئیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمام آرام وآسائش کفار کو دنیا ہی میں مل گیا ہے، آخرت میں وہ محروم رہیں گے او رہم لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ نے آخرت میں ذخیرہ کر رکھا ہے۔

اس سے صاف معلوم ہو گا کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے مسلمانوں کے افلاس او رتنگ دستی کی شکایت کی تھی اور چاہا تھا کہ دعا کر دی جائے اور فراغت اور وسعت ہو جائے مال ودولت بافراط مل جائے، خوب ہی آسائش اور آرام سے گزرنے لگے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ترقی کی درخواست کی تھی اور چاہا تھا کہ جیسے کفار کو مال ودولت میں ترقی حاصل ہے اسی طرح مسلمان بھی ترقی کریں، آپ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ ان کو یہاں مل گیا ہے، ہم کو قیامت میں ملے گا۔

مدعیان ترقی کا استدلال
ایک یہ بات لوگ بہت کہا کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں ترقی کی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ دوسری قومیں بھی ترقی یافتہ نہ تھیں۔ اب ضرورت ہے۔ ان سے دریافت کرنا چاہیے کہ کیا اس زمانہ میں کسی نے ترقی نہ کی تھی ۔ قیصر اور کسریٰ کی عیش پرستیاں اور عیش ونشاط کے سامان دیکھیے، تاریخ پڑھیے، مال ودولت میں، آرام میں، تزک اور احتشام میں، کیا تھا جو ان کے پاس نہ تھا؟ عمدہ سے عمدہ سامانِ عشرت مہیا تھے او رمسلمانوں کے پاس وہ سامان اور اسباب نہ تھا ،پھر بھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا جو اوپر مذکورہوا تو اب کیا باقی رہ گیا؟ بلکہ اگر غور کیا جائے تو صحابہ رضی الله عنہم کو افراطِ دنیا سے کچھ ضرر بھی نہ ہو سکتا تھا، کیوں کہ قلب نہایت قوی رکھتے تھے، خدا کی اطاعت، فرماں برداری ان کے دلوں اور رگ وریشہ میں گھری ہوئی تھی، دل وجان سے احکام شرعیہ کی تعمیل پر آمادہ اور سرگرم رہتے تھے ،خدا کے خوف سے ہر وقت ترساں ولرزاں رہا کرتے تھے اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ اگر کسی شخص کو سانپ پکڑنے اور اس کے زہر کے اثر نہ کرنے کا منتر یاد کرادیا گیا ہو تو وہ سانپ کو بے کھٹکے پکڑ سکتا ہے، اگرچہ سانپ اس کے ہاتھ میں ہو، مگر وہ ہر طرح سے مطمئن ہے، دنیا اگرچہ سانپ کی مثل تھی، لیکن صحابہ کو اس کا منتریاد تھا، یعنی ذکرالله، خدا کی یاد سے غافل نہ ہوتے تھے، ایسی حالت میں ان کو دنیا سے کیا ضرر ہو سکتا تھا؟ بخلاف ہم لوگوں کے، منتر تو یاد نہیں اور سانپ کو پکڑنا چاہتے ہیں ،آخر اس کا نتیجہ کیاہو گا؟ ہلاکت! جہاں ذرا اس نے ڈسا اور خاتمہ ہوا۔

صحابہ رضی الله عنہم کا حال
صحابہ کرام رضی الله عنہم کی وہ حالت تھی کہ اس کا کچھ کہنا ہی نہیں۔ حضرت عمر رضی الله عنہ جن کی دیانت، حق پرستی، قوتِ ایمان ایسے ہی تمام اخلاق وصفات، موافقین کیا مخالفین کے نزدیک بھی مسلم الثبوت ہیں، ذرا ان کی حالت دیکھیے، خلافت کا تو زمانہ او رکپڑے پیوند لگے پہنے ہوئے۔ چکنا سالن تک نہ کھاتے تھے، چناں چہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ کے صاحب زادے حضرت عبدالله رضی الله عنہ نے آپ کی دعوت کی تھی اور گوشت پکا رکھا تھا ،جس میں گھی بھی کسی قدر ڈلا تھا، کھانا کھانے کے وقت حضرت عمررضی الله عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میاں! تم نے تو ایک سالن کے ساتھ دوسرا سالن بھی جمع کر دیا، یعنی ایک تو گھی ،اس سے بھی روٹی کھائی جاسکتی ہے، دوسرا گوشت کہ اس سے بھی روٹی کھاسکتے ہیں، اس قدر اسراف او رتکلیف کی ضرورت ہی کیا تھی؟ حضرت عبدالله نے عرض کیا کہ میں نے اس مقدار معین سے زیادہ صرف نہیں کیا ہے۔ جس قدر خرچ لے کر گوشت خریدنے نکلا تھا اسی قدر میں بوجہ معمولی ہونے گوشت کے تھوڑے کا گوشت لیا او رباقی کا گھی خرید لیا، آپ نے فرمایا کہ یہ بات صحیح ہے، مگر میرے نزدیک غیر مناسب ہے، القصہ آپ نے وہ کھانا نہیں کھایا۔

چھپر رہنے کو تھا ،کوئی بڑا محل نہ تھا، دربان نہ تھے، پہرہ چوکی نہ تھا۔ اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے ۔ راتوں کو گشت لگاتے تھے، لوگوں کی حالت دریافت کرتے تھے۔ ضعفا او رمساکین کی خبر لیتے تھے، پھر بھی آپ کی کیفیت اور حالت کو دیکھیے، بغور ملاحظہ کیجیے کہ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ، جن کا ”صاحب اسرار“ لقب ہے، اس وجہ سے کہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو منافقین کے نام بتلا دیے تھے تو حضرت عمر رضی الله عنہ ان کو قسم دے دے کر پوچھا کرتے تھے کہ سچ بتلانا کہیں میرا نام تو ان لوگوں میں نہیں ہے؟ جب تقویٰ اور خشیت کی یہ حالت ہو تو پھر اگر ایسے لوگوں کے پاس دنیا ہوئی تو ان کو کیا ضرر ہو سکتا ہے؟ اب بتلائیے کہ اس زمانے کے مناسب کیوں ہے کیا اس زمانہ میں کچھ ترقی نہیں ہوئی تھی ؟اکاسرہ اور قیاصرہ کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ اور صحابہ کو ضرر کا احتمال بھی نہ تھا۔

احکام اسلام کے بارے میں مدعیان ترقی کا طرز عمل
علاوہ اس کے او رتمام چیزوں میں بھی یہی عذر کیا کرتے ہیں۔ نماز کی نسبت کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں ضرورت تھی۔ جب نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ کیوں کہ بت پرستی حال ہی میں چھوڑی تھی، اس لیے ضرورت تھی کہ خدا کی عبادت کریں، تاکہ بتوں کا خیال دل سے نکل جائے۔

روزہ رمضان کے متعلق کہتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں غصہ وغیرہ کا غلبہ تھا، قوت کا زور تھا اس لیے ضرورت تھی کہ روزہ رکھیں، تاکہ ضعف آجاوے۔ وہ سختی جاتی رہی، اب تو وہی لوگ ضعیف او رمہذب ہورہے ہیں۔ اب کیا ضرورت ہے؟ رہا حج چوں کہ وہ تجارت کا ذریعہ تھا۔ تجارت کے لیے لوگ جمع ہوا کرتے تھے حج کی بھی پخ لگا دی۔ رہ گئی زکوٰة، سو وہ تو ان کی ترقی کے بالکل ہی خلاف ہے تصویروں کے متعلق کہتے ہیں کہ پہلے لوگ بت پرستی کے ہو رہے تھے ،اس کو اچھا سمجھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد پہلا خیال کچھ نہ کچھ دل میں بسا ہوا تھا۔ اگر تصویر وغیرہ رکھتے تو خیال سابق میں زیادتی ہوتی اور بت پرستی کا ذریعہ ہو جاتا، اب کیا ضرورت ہے؟ اب تو بعض بت پرست قومیں بھی اس قباحت کو تسلیم کرتی ہیں اور مسلمانوں میں تو پشت ہاپشت سے بت پرستی کا نام بھی نہیں۔ اب تصویر سے کیا حرج ہے؟

غرض طوفان بے تمیزی برپا کر رکھا ہے، جوکچھ جی میں آتا ہے کہتے ہیں، یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اسلام ہی کی ضرورت نہیں۔ چلو چھٹی ہوئی۔ دعویٰ تو اسلام کا او راس کے تمام احکام سے انکار، ہر چیز کے ساتھ پھیر پھار کر دین سے انکار کرنا چاہتے ہیں، صاف صاف انکار کرنا تو ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بُرا کہیں گے، اگرچہ بعض نے ہمت کرکے یہ بھی کہہ دیا کہ مذہب ہی مانع ترقی ہے۔

بے ہو دہ رائے اور اس کا جواب
ایک کمیٹی لکھنو میں ہوئی تھی۔ ترقی کے ذرائع اور موانع سوچنے کے متعلق وہاں ایک صاحب نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ مذہب ہی مانع ترقی ہے۔ ایک صاحب نے وہیں خوب ہی جواب دیا اور کہا کہ واقعی یہ بات ہے، لیکن مذہب کی طرح قانون بھی تو مانع ترقی ہے۔ جب مذہب سے دست بردار ہوتے ہو تو قانون کو بھی چھوڑ دو۔ چوری ڈکیتی کی جائے تو بہت سا مال جمع ہو سکتا ہے، اگر موقع ہو اور کسی کے قتل سے مال ہاتھ آتا ہو تو اس سے دریغ کرنے کی کیا وجہ؟ غصب کو بھی جی چاہتا ہو گا۔ پھر کون مانع ہے، یہی ناکہ قانوناً ان امور کے مرتکب ہونے والے کو سزا ہوتی ہے، ذرا خلاف قانون کریں تو خبرلی جائے۔

انصاف تو یہ تھا کہ اگر مذہب سے دست بردار ہوتے تھے تو قانون کو بھی چھوڑ دیتے ،اس کی بھی پروانہ کرتے، غضب ہے حکام ظاہری کے قانون کا تو اتنا خوف اور حاکم حقیقی او رتمام جہاں کے بادشاہ، یعنی الله تعالیٰ کے قانون میں یہ دلیری اور یہ گستاخی ،عجب اندھیرا ہو رہا ہے۔ دنیا میں انہماک ہے۔

عبادت کی صورت
ایسی حالت میں عبادت کی بھلا کہاں نوبت آسکتی ہے؟ اگر کچھ لوگوں کو توفیق ہوئی بھی تو محض صورت عبادت کی ہوتی ہے، معنی عبادت کی بالکل نہیں ہوتی، معنی سے یہ عبادت محض معرا ہوتی ہے، اس کی ایسی مثال ہے جیسے بادام تو ہواور اس میں مغز نہ ہو ،صرف پوست ہی پوست ہو یا جیسے دیوالی کی مورتیں اور تصویریں ہوتی ہیں کہ یہ کمہار ہے، یہ لوہار وغیرہ ہے، سب ہی کچھ ہے، لیکن اصلیت نہیں۔ نام کو آدمی، لیکن آدمیت نہیں۔ نام تو ہاتھی ہے اور کام کچھ نہیں کر سکتا، کسی چیز کو لادنا تو درکنار وہ خود خریدنے والے اور بنانے والے پر لدا لدا پھرتا ہے او راگر کوئی حاکم کسی سے کہے کہ ہمیں ایک آدمی کی ضرورت ہے اور کوئی شخص آدمی کی تصویر پیش کر دے کہ حضور اس کو نوکری میں قبول فرما ویں تو کیا وہ حاکم اس بے وقوف نادان سے ناراض نہ ہو گا او ر اس کی اس بے ہودہ حرکت کو سخت بے ادبی اور گستاخی نہ سمجھے گا؟ سزا نہ دے گا؟

تو پھر بڑے غضب کی بات ہے کہ ہم خدا کے سامنے اس نام کے آدمی، یعنی صورت آدمی کے مثل صورت عبادت کو بے خوف وخطر پیش کریں اورگستاخی کا ذرا خیال تک نہ آئے۔ عبادت بے جان تو پیش کریں اور شرماویں نہیں۔

حقیقت وروحِ عبادت
اب سمجھنا چاہیے کہ عبادت کی روح او رجان کیا ہے، اس کی حقیقت اور صورت میں کیا فرق ہے؟ کون سی چیز ہے جس کے ہونے سے صورتِ عبادت اصلی عبادت ہو جاتی ہے؟ اس کا کیا درجہ ہے؟ پس اس حدیث میں دیکھیے، عبادت کے اچھا کرنے کی حقیقت بتائی ہے اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کے اچھا ہونے کے کیا معنی ہوا کرتے ہیں؟ یعنی اس میں کوئی نقصان نہ ہو، کوئی کسر نہ رہے۔ جیسی چاہیے ویسی ہی ہو، غرض ہر چیز کا اچھا ہونا اس کے مناسب جدا طریق سے ہوتا ہے، مثلاً اچھی روٹی وہ ہو گی جس کا مادہ بھی اچھا، صورت بھی اچھی ہو ،جو اس کا ثمرہ ہے وہ بھی اچھا ہو۔

اسی طرح یوں کہا کرتے ہیں کہ فلاں طالب علم امتحان میں اچھا رہا۔ یعنی اس کی تقریر بھی اچھی اور تحریر بھی طرز بیان بھی، خوب صاف تھا، مطلب واضح تھا، حشو وزوائد سے کلام مبرا تھا ،یعنی تمام ضروریات مجتمع تھیں۔ کوئی حالت ایسی نہ تھی جس کی کمی رہ گئی ہو ۔ اس پر قیاس کرکے عبادت کے اچھے ہونے کے معنی بھی سمجھیے کہ جتنے امور کی عبادت میں ضرورت ہے ۔ جو چیزیں واجب الاجتماع ہیں سب کی سب اس میں پائی جاویں، کسی چیز کی کسر نہ رہے۔ یہ تواجمالاً تھا۔

علم وعمل کی ضرورت
اب اس کی تفصیل کہ وہ کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جن سے عبادت اچھی ہوتی ہے؟ شرائع میں غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے، لوگ عموماً غلطی کرتے ہیں اور صرف صورت اور نقل عبادت ہی کو عبادت سمجھتے ہیں، یعنی فقہاء نے جو ضبط کر دیا ہے قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ، قومہ وغیرہ۔ اس میں شک نہیں جو کچھ فقہاء نے لکھا ہے وہ ٹھیک ہے اور جو فقہ کا موضوع تھا اس کے موافق انہوں نے لکھا ہے، لیکن یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ تمام امور میں، جن کو عبادت سے تعلق ہے ،اس میں منحصر ہیں، شریعت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ او رکچھ بھی ہے، اس فقہ کے ساتھ ایک دوسری فقہ یعنی معنی شرع کا بھی اعتبار ہے۔ اس معنوی فقہ کو تصوف کہتے ہیں تصوف کو علیحدہ او ر الگ کتابوں میں لکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فقہ سے خارج ہو جاوے، یہ علیحدگی ایسی ہے جیسے فقہ مذکورہ میں کتاب الزکوٰة اورکتاب الصلوٰة الگ الگ کتابیں ہیں، کتاب الصلوٰة کے مسائل کتاب الزکوٰة میں نہیں ملیں گے اورکتاب الزکوٰة کے کتاب الصلوٰة میں۔ اسی طرح کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ کتاب الزکوٰة یا کتاب الصلوٰة فقہ میں داخل نہیں۔ اسی طرح کتاب التصوف بھی ہے، اگرچہ اس کی کتابیں الگ ہیں۔ اگر کوئی ہدایہ کی ہر ہر کتاب کو الگ الگ چھاپ دے تو کیا کتاب الصلوٰة، کتاب الزکوٰة وغیرہ ہدایہ سے خارج ہوجاویں گی؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ اسی طرح توحید، اخلاص یا کبر، تواضع،عُجب وغیرہ اخلاقِ حمیدہ اور رذیلہ کے احکام بھی فقہ میں داخل ہیں، عموماً لوگ نماز میں قیام، رکوع وغیرہ ہی کو عبادت کی حقیقت سمجھتے ہیں او راسی میں عبادت کو محصور جانتے ہیں، عوام تو عوام طالب علموں کی بھی شکایت ہے، ہم لوگوں کی اپنی حالت قابلِ افسوس ہے، ہاں! اہلِ علم خود اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ (جاری) 
Flag Counter