Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1434ھ

ہ رسالہ

15 - 17
حافظے کو مضبوط بنائیے
مولانا انس احمد، کراچی

اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کو بیش بہا انعامات سے نوازا ہے۔ ان میں دل اور دماغ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ دل اگر بادشاہ ہے تو دماغ اس کا وزیر۔ دماغ ایک حیرت انگیز اور عظیم قوت ہے ۔ یہ وہ عضو ہے جو تمام قدرتی مخلوقات سے انسان کو برتر بناتا ہے، یعنی دماغ کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس کائنات میں ہر ذی روح حافظہ کی قوت رکھتی ہے، مگر اللہ رب العزت نے انسان کو یہ قوت سب سے زیادہ عطا کی ہے۔ انسان جو کچھ بھی دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے اس کا اثر و نقش اس کے دماغ پر ثبت ہو جاتا ہے۔ اس اثر و نقش کی تجدید کرنے والی قوت ”حافظہ“ کہلاتی ہے ۔ کسی چیز کو سیکھنے کی اہلیت ، قابلیت، اس کو یاد رکھنے کی صلاحیت اور مناسب موقع و محل پر اس کا استعمال کرنے کی قدرت و صلاحیت کا نام حافظہ ہے۔

حافظہ کے شرائط،جسمانی صحت
اچھے حافظے کے لیے جسمانی صحت پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ حافظہ کو نظم و ضبط کے ساتھ رکھنے کے لیے قوتِ ارادی میں اضافہ ضروری ہے اور قوتِ ارادی کا قیام تندرستی کے بغیر محال ہے۔ دماغ کی طرف صحت مند خون کا سرگرمی کے ساتھ دورہ حافظہ پر یقینا بہتر اثرڈالتا ہے۔ اس لیے قوانینِ صحت کا پورا خیال رکھنا ایک ضروری امر ہے۔

پسندیدہ موضوع/پیشہ
آدمی کو اپنی دلچسپی اور رجحان کا اچھی طرح جائزہ لے کر ایسا پیشہ یا موضوع منتخب کرنا چاہیے جو شریعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس کی ذہنی تسکین کاباعث ہو۔ میلانِ طبع کے برعکس پیشہ یا موضوع اختیار کرنے پر آدمی سے بھولنے اور غلطیاں کرنے جیسی پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔

غور وفکر
غور و فکر کی صفت اچھے حافظے کے لیے بہترین عمل ہے۔ کسی واقعے یا عنصر کو حافظہ میں لانے کے لیے اس کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کرنا، تحریر یا ذہن سے اس کا اعادہ و تکرار کرنا ضروری ہے۔ اس سے حافظہ پر ایک اچھا اثر پڑتا ہے۔ کسی عمل میں سوچ و بچار کے بعد ہاتھ ڈالنا، کام کے دوران غور و فکر سے کام لینا ، کام مکمل ہونے کے وقت اس پر تنقیدی نگاہ ڈالنے سے نہ صرف حافظہ میں، بلکہ فنی قابلیت و اہلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

قوتِ مشاہدہ
قوتِ مشاہدہ بھی حافظہ کے لیے ضروری ہے۔ بہت کم لوگ اس قوت کا صحیح اور مکمل استعمال کرتے ہیں۔ جن واقعات یا جن اشیا سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اس پر ہم توجہ نہیں دیتے، دماغ پر گہرے نقوش کے لیے گہرے مشاہدے کی ضرورت ہے۔

توجہ
یہ حافظہ کا ایک اہم جزو ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ بعض طلبا بہت کم محنت کے باوجود اپنے دیگر ساتھیوں سے، جو مسلسل دماغ سوزی کرتے ہیں، سبقت لے جاتے ہیں؟ اس کی اصل وجہ درس گاہ میں دورانِ تعلیم وہ یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں اور جو بے توجہی یا بے خیالی سے سن رہے ہوتے ہیں وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور بعد میں محنت کرنے کے باوجود آگے نہیں بڑھتے ۔

اضطراب و تشویش
اچھے حافظے کے خواہش مندحضرات کو اضطراب و تشویش کی غلامی ہرگز قبول نہیں کرنی چاہیے۔ ماضی کے مصائب اور غلطیاں ماضی کے ساتھ رخصت ہو گئیں۔ انہیں یاد کر کے کیوں اپنے آپ کو تھکایا جائے؟ مستقبل بعید کی فکر ماضی کے پچھتاوے سے بھی زیادہ فضول ہے۔ بہتر ہے کہ فضول بحث نہ کی جائے اور غیر ضروری بات یاد رکھنے سے بچا جائے۔ (اسبابِ ذہانت اور علم و عمل، مصنفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمة اللہ علیہ )

بالترتیب زندگی
ایک باقاعدہ اور بالترتیب طرزِزندگی بھی حافظہ کی اصلاح و ترقی میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ بہتر خانہ داری کا یہ اصول ہے کہ تمام اشیا اپنے اپنے مقررہ ٹھکانوں پر اس ترتیب سے رکھی جائیں کہ ضرورت کے وقت ایک منٹ بھی تلاش و جستجو میں ضائع نہ ہو۔ جو چیز جہاں سے اٹھائی جائے استعمال کے بعد وہیں رکھ دی جائے۔ جان بوجھ کر صدمے کو ہر وقت تازہ رکھنے سے گریز کیا جائے۔ رنج وصدمہ کی حالت میں زیادہ وقت مخلص دوستوں کی صحبت میں گزارا جائے۔

غرضیکہ اپنے حالات کے مطابق ہر اس تجویز پر عمل کیا جائے جس سے پریشانی سے نجات ملے۔ پریشان آدمی کا حافظہ کبھی قابلِ اعتماد نہیں ہو سکتا۔ اس حقیقت سے بھی چنداں انکار نہیں کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے زندگی اور انسانیت کی کوئی نمایاں خدمت سرانجام دی ہے وہ دوسری خوبیوں کے علاوہ اچھے حافظہ سے بھی بہرہ مند تھے۔

بچپن کی بے احتیاطی
بچوں کی پرورش میں بعض اوقات والدین بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں،ان کی بے جاضدیں پوری کرتے ہیں، لاڈ پیار سے ان کی عادتیں خراب کر دیتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر غیر متوازن غذا اور دیگر عادات کی وجہ سے متوازن شخصیت کے طور پر پروان نہیں چڑھتے ۔ اسی وجہ سے بعض بچے جسمانی طور پر خوب تن درست ہوتے ہیں، مگر دماغی طور پر اپنی عمر سے کم ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے حافظے کے بغیر کوئی بچہ تعلیم کے اعلیٰ درجہ تک نہیں پہنچ سکتا، اعلیٰ علمی مرتبہ حاصل کرنے کے لیے قوتِ حافظہ بہت ضروری ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ اپنے ایک شاگرد سے فرماتے ہیں : تم ایک کند ذہن تھے، مگر تمہاری پابندی نے تمہیں آگے بڑھایا۔ دیکھو! سستی اور کاہلی سے ہمیشہ دور رہنا ،کیوں کہ یہ انسان کی ترقی کے لیے بد نصیبی اور بڑی آفت ہے۔

ذہانت کی تقویت کے اسباب
نہار منہ کشمش اور بادام کااستعمال حافظہ کے لیے مفید ہے، مسواک کا پنج گانہ نماز سے پہلے وضو میں استعمال، تلاوتِ قرآن مجیدا ور کثرتِ استغفار سے باطن روشن ہوتا ہے ،جو قوتِ حافظہ کا باعث ہے۔ سمجھ کر کچھ یاد رکھنا نہ صرف مفید ہے، بلکہ اس سے فہم اور ادراک بڑھتا ہے۔ بازاری کھانوں سے بچنا چاہیے اس سے کند ذہنی کا خطرہ ہوتا ہے۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سولہ سال سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا کہ اس سے جسم بھاری ہوتا ہے اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے ، ذہانت کم ہو جاتی ہے۔ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا ، نرم و شیریں گفتگو کرنا قوتِ حافظہ اور رزق میں زیادتی کا سبب بنتا ہے۔ حصولِ علم میں مسلسل محنت ، بلاعذر ناغہ نہ کرنا قوتِ حافظہ کے لیے اچھے اعمال ہیں۔ حافظہ اور ذہانت پر کم نیند اور بے خوابی زہر کا اثر کرتی ہے، اس سے ذہنی الجھن پیدا ہوتی ہے۔امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پوری طرح شکم سیر ہونا دل کو سخت اور ذہن کو خراب کرتا ہے، حافظہ کمزور کرتا ہے اور اعضا کو بوجھل کر دیتا ہے۔ اس سے عبادت اور حصولِ علم میں کمی اور کوتاہی آجاتی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: عقل، دانائی اور فہم و فراست اگرچہ فطری ہے، لیکن تجربہ کی کثرت سے ثابت ہے کہ ذہانت عقل مندوں کی صحبت، علومِ عقلیہ کی تحصیل اور قصص و نصائح سننے سے بڑھتی ہے۔ذہانت یا حافظہ کی حفاظت، محنت اور فکر مندی سے خود کو دانش مند بنائیں اور اپنے آپ کو احمقوں کے زمرہ میں شامل ہونے سے بچائیں۔

بعض حکماء کے نزدیک گناہوں کی کثرت ، نمکین گوشت ، گرما گرم روٹی کھانا، پھل دار درخت کے نیچے اور ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرناوغیرہ نسیان (بھول) اور کُند ذہنی پیدا کرتا ہے، ان سے بچنا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور استفادے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک اعمال کی توفیق ، قوت اور استعداد عطا فرمائے۔ آمین .
Flag Counter