کرسی پر نماز کا جواز وعدمِ جواز
ایک مطالعہ وتجزیہ
مفتی محمد جعفر ملی رحمانی
الحمد للہ رب العالمین،والصلوٰة والسلام علی رسولہ الکریم، أما بعد!
کرسی پر نماز کے جواز وعدمِ جواز کے مسئلہ پر مفصل بحث کے لیے ضروری ہے کہ ہم درج ذیل تمام پہلووٴں پر غور کریں:
1... شرعِ اسلامی میں معذور کی نماز کا طریقہ کیا ہے؟
2... قیام وقعود کسے کہتے ہیں؟
3... کرسی پر بیٹھنے والا قاعد ہے یا نہیں؟
4... کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
5... کرسی پر بیٹھنے کی صورت میں سجدہ کی صورت کیا ہوگی؟
مریض ومعذور کی نماز کا طریقہ
جو شخص ایسا معذور ہو کہ اس کے لیے قیام ممکن ہی نہ ہو، یا ممکن تو ہو، مگر گرجانے کا اندیشہ ہو، یا حالت اس قدر کمزور ہو جو شرعاً عذر میں داخل ہوسکتی ہو، مثلاً کوئی ایسا بیمار، جسے ماہر مسلم ڈاکٹر نے یہ کہا ہو کہ کھڑے ہونے کی وجہ سے تمہاری بیماری میں اضافہ ہوگا، یا صحت یابی میں دیر ہوگی، یا کھڑے ہونے کی وجہ سے ناقابلِ بر داشت درد وتکلیف ہوتی ہو،…ان صورتوں میں بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے۔
صاحب در مختار فرماتے ہیں:
”من تعذّر علیہ القیام لمرض حقیقي وحدہ أن یلحقہ بالقیام ضرر، وفي البحر: أراد بالتعذر - التعذّر الحقیقي بحیث قام سقط، أو حکمي بأن خاف أي غلب علی ظنہ بتحریہ سابقة، أو إخبار طبیب مسلم حاذق زیادتہ، أو بطأ برئہ بقیامہ، أو دوران رأسہ، أو وجد لقیامہ ألمًا شدیدًا صلی قاعدًا “․ (الدر مع الشامیة :2/565)
اگر غیر معمولی درد وتکلیف نہ ہو،بلکہ ہلکا اور قابلِ برداشت ہو تو شرعاً یہ عذر نہیں اور بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں۔
” وإن لم یکن کذلک (أي بما ذکر) ولکن یلحقہ نوع مشقة لا یجوز ترک القیام “․ (تاتارخانیہ:2/667)
جو شخص قیام پر قادر نہیں، لیکن زمین پر بیٹھ کر رکوع سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے، تو وہ زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز کا مکلف وپابند ہے، اس کے علاوہ کسی اور صورت میں اس کی نماز درست نہیں۔
”وإن عجز عن القیام، وقدر علی القعود، فإنہ یصلي المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود، ولا یجزیہ غیر ذلک، فإذا عجز عن القیام یصلي قاعدًا برکوع وسجود “․ (تاتارخانیہ :1/6667)
اگر کوئی شخص بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز پر قادر نہیں تو وہ بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے کا مکلف وپابند ہے اور یہ شخص اپنے سجدہ کے اشارہ کو رکوع سے زیادہ پست کرے اور بیٹھنے میں یہ ضروری نہیں کہ تشہد کی حالت میں بیٹھے، بلکہ جس ہیئت پر بھی، خواہ اس حالت میں ہو جس حالت میں عورت بیٹھتی ہے، یا آلتی پالتی مار کر ہو- بیٹھ سکتا ہے۔
”من تعذّر علیہ القیام لمرض، أو خاف زیادتہ، أو وجد لقیامہ ألمًا شدیدًا صلی قاعدًا کیف شاء“ ․ (الدر المختار مع الشامیة:2/566، الفتاوی الہندیة:1/136)
” فإن عجز عن الرکوع والسجود یصلي قاعدًا بالإیماء، ویجعل السجود أخفض من الرکوع “․ (بدائع الصنائع :1/284)
اگر کوئی شخص خود سیدھا بیٹھنے پر قادر نہیں، مگر گھر پڑوسی یا کسی فرد یا اجنبی شخص یا تکیہ یا کسی اور چیز کا سہارا لگاکر بیٹھنے پر قادر ہے، تو اس پر فرض ہے کہ اس کے سہارے بیٹھ کر نماز پڑھے، اس کے لیے لیٹ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ (عمدة الفقہ :2/403)
” وإذا لم یقدر علی القعود مستویًا وقدر متکیًا أو مستندًا إلی حائط، أو إنسان یجب أن یصلي متکیًا أو مستندًا․ کذا في الذخیرة “․ (الدر المختار مع الشامیة:2/566 ، الفتاوی الہندیة:1/136)
اگر کوئی شخص کسی طرح بھی بیٹھنے پر قادر نہیں تو لیٹے لیٹے اشارہ سے نماز پڑھتا رہے۔
” فإن عجز عن القعود مستلقیًا، ویوٴمی إیماء؛ لأن السقوط لمکان العذر بقدر العذر، والأصل فیہ قولہ تعالی: ﴿فاذکروا اللہ قیامًا وقعودًا وعلی جنوبکم﴾․ قیل: المراد من الذکر المأمور بہ في الآیة ہو الصلاة أي صلوا، ونزلت الآیة رخصة صلاة المریض أنہ یصلي قائمًا إن استطاع، وإلا فقاعدًا، وإلا مضطجعًا، کذا روي عن ابن مسعود وابن عمر وجابر رضي اللہ عنہم “․ (بدائع الصنائع:2/184)
لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت یہ ہے کہ چت یعنی کمر پر لیٹے اور اپنے دونوں پاوٴں قبلہ کی طرف کو پھیلائے (ہمارے ملک میں چوں کہ قبلہ مغرب کی طرف ہے، اس لیے اس کا سر مشرق کی طرف اور پاوٴں مغرب کی طرف ہوں گے) اور اشارہ سے رکوع وسجود کرے، لیکن اگر کچھ طاقت ہے تو دونوں گھٹنوں کو کھڑا کرلے اور پاوٴں قبلہ کی طرف نہ پھیلائے، کیو ں کہ بلا ضرورت یہ فعل مکروہِ تنزیہی ہے اور چاہیے کہ اس کے سرکے نیچے ایک تکیہ رکھ دیں تاکہ وہ بیٹھنے والے کے مشابہ ہوجائے اور منہ قبلہ کی طرف ہوجائے آسمان کی طرف نہ رہے اور رکوع وسجود کے لیے اشارہ بھی اچھی طرح کرسکے، کیوں کہ بالکل چت لیٹنا تن درست کو بھی اشارہ سے روکتا ہے ، تو پھر مریض کو تو اور بھی مشکل ہے، اگر چت نہ لیٹے، بلکہ دائیں یا بائیں کروٹ پر لیٹے اور منہ قبلہ کی طرف کو کرکے اشارہ سے نماز پڑھے تو جائز ہے، لیکن چت لیٹنا اولیٰ وافضل ہے اور دائیں کروٹ لیٹنے کو بائیں کروٹ پر فضیلت ہے اور جائز دونوں طرح ہے۔ (عمدة الفقہ :2/405)
”وإن تعذر القعود․ ولو حکمًا أومأ مستلقیًا علی ظہرہ ورجلاہ نحو القبلة، غیر أنہ ینصب رکبتیہ، لکراہة مد الرجل إلی القبلة، ویرفع رأسہ یسیرًا لیصیر وجہہ إلیہا أو علی جنبہ الأیمن أو الأیسر ووجہہ إلیہا، والأول أفضل علی المعتمد“․ الدر المختار․ وفي الشامیة: قولہ: (ویرفع رأسہ یسیرًا) أي یجعل وسادة تحت رأسہ؛ لأن حقیقة الاستلقاء تمنع الأصحاء عن الإیماء، فکیف بالمرضی؟۔ بحر۔ قولہ: (والأول أفضل) لأن المستلقي یقع إیماہ إلی القبلة، والمضطجع یقع منحرفًا عنہا۔ بحر۔ قولہ: (علی المعتمد) مقابلہ ما في القنیة من أن الأظہر أنہ لا یجوز الاضطجاع علی الجنب للقادر علی الاستلقاء․ قال في النہر: وہو شاذ․ وقال في البحر: وہذا الأظہر خفی، والأظہر الجواز اہ․ وکذا ما روي عن الإمام من أن الأفضل أن یصلي علی شقہ الأیمن، وبہ قالت الأئمة الثلاثة، ورجحہ في الحلیة، لما ظہر لہ من قوة دلیلہ مع اعترافہ بأن الاستلقاء ہو ما في مشاہیر الکتب والمشہور من الروایات “․ (الدر المختار مع الشامیة:2/569)
قیام وقعود کسے کہتے ہیں؟
تمام فقہائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز میں مطلوب قیام کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو- رکوع سے کم- ا تنا جھکنا کہ دونوں ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچ پائیں، قیام کے لیے مضر نہیں ہے۔
”اتفق الفقہاء علی أن القیام المطلوب شرعًا في الصلاة ہو الانتصاب معتدلا، ولا یضر الانحناء القلیل الذي لا یجعلہ أقرب إلی أقل الرکوع، بحیث لو مدّ یدیہ لا ینال من رکبتہ“․ (الموسوعة الفقہیة :34/107)
”قعود“ قعد کا مصدر ہے، قعدہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک انسان کھڑا تھا ،پھر وہ زمین پر بیٹھ گیا۔
”القعدة لغة: مقدار ما أخذہ القاعد من المکان․ واصطلاحًا: ہي القعدة في الصلاة، لأجل التشہد․ والقعود مصدر قعد: إذا کان واقفًا، فجلس، والقعود فیہ لبث بخلاف الجلوس، ولہذا یقال: قواعد البیت، ولا یقال: جوالسہ․ ویقال: جلیس الملک، ولا یقال: قعید الملک “․ (قواعد الفقہ :ص/432 ، التعریفات الفقہیة :ص/176)
علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے قعدہ کی حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:
” اوپر والے دھڑ کو سیدھا رکھنا اور نیچے والے دھڑ کو موڑ کر سُرین زمین پر رکھ کر اور ٹکا کر بیٹھنا قعدہ ہے“۔
”ولو تبدل الانتصاب في النصف الأسفل بما یضادہ، وہو انضمام الرجلین وإلصاق الالیة بالأرض، یسمی قعودًا، فکان القعود اسمًا لمعنیین مختلفین في مختلفین، وہما الانتصاب في النصف الأعلی، والانضمام والاستقرار علی الأرض في النصف الأسفل “․ (بدائع الصنائع :1/143، فصل شرائط أرکان الصلاة)
کیا کرسی پر بیٹھنے والا قاعد شمار ہوگا؟
کرسی پر بیٹھنے والے شخص پر قعدہ مذکورہ کی تعریف صادق نہیں آتی، اور نہ قرآن وحدیث اور آثارِ صحابہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کرسی پر بیٹھنے والا زمین پر بیٹھنے والے کی مانند ہے۔
کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
خلاصہ فتویٰ دار العلوم دیوبند:
” جو شخص قیام پر قادر نہ ہو لیکن کسی بھی ہیئت پر زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے، تو اس کو زمین ہی پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے، کرسی پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے اشارہ سے نماز ادا کرنا جائز نہیں، نماز نہیں ہوگی“۔
اگر قیام پر قدرت ہے، لیکن گھٹنے، کمر میں شدید تکلیف کی وجہ سے سجدہ کرنا طاقت سے باہر ہو، یا وہ شخص جو زمین پر بیٹھنے پر قادر ہے، مگر رکوع وسجدہ پر قدرت نہیں رکھتا ، تو یہ حضرات زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، کرسیوں کو استعمال کرنا کراہت سے خالی نہیں، البتہ اگر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنا دشوار ہو تب کرسی پر نماز ادا کی جاسکتی ہے“۔ (ماہنامہ دار العلوم دیوبند، جلد 95، شمارہ:6، رجب 1432ھ جون2011ء)
فتاویٰ دار العلوم زکریا (افریقہ) :
فتاویٰ دار العلوم زکریا میں ” کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم “ سے متعلق یہ جواب درج ہے:
” جب تک قیام پر قدرت ہو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں اور سجدہ پر قدرت نہ ہوتو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، جو حضرات قیام وسجدہ پر قدرت نہیں رکھتے ہیں ان کو اول حکم بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ہے، کرسی پر نماز پڑھنا درست نہیں، اگر قیام پر قدرت ہو اور سجدہ پر قدرت نہ ہو تو قیام ساقط ہوجاتا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کرسی پر نماز پڑھنا جائز ہوجاتا ہے، بلکہ قیام اس وجہ سے ساقط ہوتا ہے کہ اصل مقصود نماز میں سجدہ ہے اور قیام ورکوع اس کے لیے وسیلہ ہے اور اسی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے سجدہ کے سقوط کے وقت کیوں کہ قعود مشابہ بالسجود ہے اور اقرب الی الارض ہے، حتی الامکان حصولِ مقصود کی طرف اشارہ ہے، اس وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے اور کرسی پر نماز پڑھنے میں یہ افضلیت حاصل نہیں ہوتی “ ۔ (مختصراً : 2/485، کتاب الصلاة)
احسن الفتاویٰ میں مذکور ہے : (کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا)
” بعض لوگ کرسی پر بیٹھ کر سجدہ کے بجائے اشارہ سے نماز پڑھتے ہیں ، اگر زمین پر بیٹھ کر سجدہ کی قدرت ہو تو کرسی پر اشارہ سے نماز نہیں ہوگی“۔ فقط واللہ اعلم (مقتبس از احسن الفتاویٰ : 4/51)
فتاویٰ بینات میں ” گاڑی اور کرسی پر بیٹھ کر نمازپڑھنے کا حکم“ کے عنوان کے تحت مذکور ہے :
”قیام پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں مریض کے لیے بنائی گئی گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ رکوع وسجدہ پر قدرت نہ ہو ، اگر قیام پر قدرت نہیں، مگر رکوع سجدہ پر قدرت ہے تو رکوع سجدہ کرنا فرض ہے، ایسی صورت میں مذکورہ گاڑی میں سامنے ٹیبل وغیرہ رکھ کر سجدہ ادا ہوسکتا ہو، تو اس میں نماز جائز ہے ، ورنہ نہیں“۔ (2/389)
اس فتوے کی تصویب وتصحیح کے بعد مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیة اس کا خلاصہ یوں رقم فرماتے ہیں کہ :
” جب قیام پر قدرت نہ ہو تو زمین پر بیٹھ کر بھی نماز جائز ہے اور گاڑی پر بیٹھ کر بھی، لیکن دونوں صورتوں میں اگر سجدے پر قدرت ہو تو سجدہ کرنا ضروری ہوگا، خواہ زمین پر کرے یا گاڑی کے سامنے کوئی تختہ یا میز رکھ کر ، جب اس طرح سجدے پر قدرت نہ ہو تب اشارہ جائز ہوگا ،ورنہ نہیں“ ۔ واللہ سبحانہ اعلم ۔ احقر محمد تقی عثمانی 16/4/1413ھ (2/390 ، کتاب الصلاة)
مفتی محمد رضوان کا موٴلفہ کتابچہ ” کرسی پر اور مریض کی نماز کے احکام“ میں کرسی پر نماز کے سلسلے میں تحریر اس طرح ہے:
” کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا سنت کے قریب اور سلفِ صالحین کے طریقہ کے مطابق نہیں “ …(نیز) نماز کی جتنی بھی حالتیں ہیں، یعنی قیام ، رکوع، سجود، قعدہ - کرسی پر بیٹھنا ان مذکورہ حالتوں میں سے کسی بھی مسنون حالت میں داخل نہیں، اس لیے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا نماز کی مسنون ومشروع حالتوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ اور غیر مشروع عمل ہے “ ۔ (مقتبس :ص/30، 31، کرسی پر نماز پڑھنے کا مروجہ طریقہ پسندیدہ نہیں)
” اگر کوئی شخص قیام، رکوع اور سجدہ تینوں ارکان پر قادر ہے، فقط گھٹنوں میں درد وغیرہ کی وجہ سے وہ زمین پر دو زانو ، چار زانو - خواتین کے بیٹھنے کی طرح - غرضیکہ کسی بھی طرح مسنون وغیر مسنون قعدہ کرنے پر قادر نہیں، تو اس کے لیے کرسی پر نماز پڑھنا اس طریقے سے جائز ہے کہ قیام کی حالت میں باقاعدہ کھڑا ہو، قیام سے فارغ ہوکر کمر جھکا کر رکوع کرے اور سجدہ کے لیے وہی طریقہ اختیار کرے جو اوپر گزر چکا“۔ (حوالہ بالا:ص/35)
جماعت العلماء تامل ناڈوکا متفقہ فیصلہ :
20 صفر المظفر 1432ھ مطابق 25 جنوری 2011ء کو شہر ”مدورائے“ میں تامل ناڈو کے تقریباً تین سو پچاس علماء کے درمیان روز بروزمساجد میں کرسیوں کی کثرت پر بحث ومباحثہ ہوا، معذورین وغیر معذورین کے حالات کا جائز لیا گیا، سدًّا للذریعة متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا:
”کرسیوں پربیٹھ کر نماز پڑھنا قطعاً جائز نہیں ہے ، معذور حضرات زمین پر ہی بیٹھ کر نماز پڑھیں، گھٹنوں میں زیادہ ہی درد ہو تو پاؤں کو قبلہ کی طرف پھیلالیں، جیسا کہ الدر المختار میں ہے، قابلِ غور بات یہ کہ مجلس میں موجود تمام علماء نے مندرجہ بالا فیصلہ پر مکمل اتفاق کیا“۔ (شعبہٴ افتاء جماعت العلماء تامل ناڈوکا شائع کردہ پمفلٹ”کرسیوں پر بیٹھ کرنماز پڑھنا…)
مفتی شعیب اللہ خان صاحب کے تحقیقی مضمون ” کرسی پر نماز کی فقہی تحقیق“ سے اقتباس پیش خدمت ہے:
محور اول: بلا عذر کرسی پر نماز ناجائز ہے:
” کرسی پر بلا عذر نماز کے حکم کے بارے میں عرض ہے کہ بلا عذر ِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے“۔
” بلا عذرکرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، اور اس طرح نماز پڑھنے والوں کی نماز بالکل بھی نہیں ہوتی اور اس طرح پڑھی ہوئی نمازیں ان کے ذمہ علیٰ حالہ باقی رہتی ہیں“۔ (مقتبس از ماہنامہ دار العلوم دیوبند ، جلد:96، شمارہ:10،11، ذی الحجہ1433ھ محرم1434ھ مطابق اکتوبر، نومبر2012ء)
محور دوم : عذرِ معقول کی وجہ سے کرسی پر نماز جائز ہے:
محور دوم میں مفتی موصوف نے بہت سی معقول اعذار والی صورتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:
” اس قسم کے اصحابِ اعذار کو کرسی پر نماز کی اجازت ہونی چاہیے، کیوں کہ اوپر خود فقہاء کے کلام میں یہ ضابطہ ہم نے پڑھ لیا ہے کہ : طاعت بقدر طاقت ہوا کرتی ہے۔ جب اس قسم کے اعذار میں نیچے بیٹھ کر نماز کی طاقت نہیں، یا نیچے بیٹھنا بڑا مشکل ہے، تو کرسی پر پڑھنے کی اجازت ایک معقول بات بھی ہے اور اصول فقہیہ کی روشنی میں شرعی بات بھی ہے۔
لیکن اس جگہ وہی دو باتیں ذہن نشین ہونی چاہییں: ایک تو یہ کہ عذر موجود ہو، بلا عذر کرسی پر نماز پڑھنا گناہ بھی ہے اور اس کی وجہ سے نماز ہوتی بھی نہیں، اور دوسری بات یہ کہ معمولی اور چھوٹا موٹا عذر نہیں؛ بلکہ معقول وشرعاً معتبر عذر ہو، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی یا تو سکت وطاقت ہی نہ ہو، یا طاقت تو ہو ، مگر اس سے ناقابلِ برداشت تکلیف ودرد ہوتا ہو، یا زمین پر بیٹھنے سے بیماری وتکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو، اس صورت میں کرسی پر نماز کی اجازت ہے“۔ (حوالہ بالا)
”زبدة الفتاویٰ“ میں ہے:
”سوال: جو شخص تکلیف کی وجہ سے کھڑے رہ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو، ایسے شخص کے لیے زمین پر بیٹھنے کے بجائے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ یا ایسے شخص کے لیے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ضروری ہے؟
جواب: حامدا ومصلیاً: جو شخص زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہو اس کے لیے کرسی پر بیٹھ کر پاوٴں لٹکا کر یا پاوٴں زمین پر رکھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، اور اس کے لیے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے۔
اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکنے والا شخص کرسی پر اس طرح بیٹھے کہ پاوٴں لٹکے ہوئے نہ رہیں، بلکہ کرسی پر بطریقہٴ قعدہ یا چار زانو پا وٴں اٹھاکر بیٹھے اور رکوع سجدہ کرے تو نماز جائز ہوگی، لیکن اس صورت میں اس طرح کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا گناہ سے خالی نہیں، لہٰذا ایسے شخص کو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا چاہیے ۔
جو شخص گھٹنے یا کمر کے درد کی وجہ سے یا کسی اور تکلیف کی بناپر نماز پڑھنے کے لیے زمین پر نہ بیٹھ سکتا ہو تو اس شخص کے لیے کرسی پر نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن کرسی پر پاوٴں لٹکا کر نہ بیٹھے، بلکہ قعدہ کی ہیئت میں یا چار زانو بیٹھنا چاہیے، البتہ اگر پاوٴں اٹھا کر بصورتِ قعدہ یا چار زانو کرسی پر نہ بیٹھ سکتا ہو ، تو ایسی مجبوری کی حالت میں پاوٴ ں لٹکا کر کرسی پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ سکتا ہے“۔ (کفایت المفتی:3/376 ، احسن الفتاویٰ :4/51) (زبدة الفتاویٰ:1/490، 491)
”کتاب المسائل“ میں ہے:
” جو شخص کسی وجہ سے سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو، اس سے بھی نمازمیں قیام کا فریضہ ساقط ہے، اس کے لیے بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنا افضل ہے، اگر کھڑے کھڑے اشارہ سے نماز پڑھے گا تو خلافِ اولیٰ ہوگا۔ (نیز اس کے لیے کرسی یا اسٹول پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے کی بھی گنجائش ہے)“۔ (1/528، نماز مریض)
اور ایک جگہ یوں مذکور ہے:
” اگر کوئی شخص کھڑا تو ہوسکتا ہو مگر اپنی بیماری یا ضعف کی وجہ سے رکوع اور سجدہ نہ کرسکتا ہو ، تو اس پر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا لازم نہیں؛ بلکہ بیٹھ کر نماز پڑھے اوررکوع اور سجدہ کے لیے اشارہ کرے، یہی افضل ہے۔ (ایسا شخص کرسی یا اسٹول پر بیٹھ کر بھی رکوع اور سجدہ کا اشارہ کرسکتا ہے)“۔ (1/540، نماز مریض)
عرب علماء میں شیخ خاشع حقی العلوانی فرماتے ہیں:
” قیام، رکوع اور سجود پر قدرت ہونے کی صورت میں شریعت نے ہمیں اسی کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم فرمایا، پس اگر کوئی شخص قیام پر قادر نہیں تو وہ بیٹھ کر رکوع وسجود کے ساتھ نماز پڑھنے کا مکلف وپابند ہے اور اگر بیٹھ کر رکوع، سجود یا اشارہ کے ساتھ نماز پر قادر نہیں ، تو وہ پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھنے کا پابند ہے اور یہ تینوں طریقے حدیثِ پاک سے ثابت ومنصوص ہیں،کرسی پر نماز پڑھنا دین میں بدعتِ ظاہر ہ اور شریعت کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مقابل ایک نیا طریقہ ہے، جو کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں“۔
شیخ احمد الحجی الکردی فرماتے ہیں:
” اگر کوئی شخص قیام ، رکوع اور سجود علی الارض پر قادر ہے تو اس کے لیے فرض یا نفل نماز کرسی پر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے“۔
”جو شخص قیام سے عاجز ہے، لیکن زمین پر بیٹھنے اور سجدہ علی الارض پر قادر ہے تو اس پر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا اور زمین پر سجود کا ادا کرنا فرض ونفل میں لازم ہے، اگر اس صورت میں وہ کرسی پر نماز پڑھے تو اس کی نماز مقبول نہ ہوگی“۔
”اگر کوئی شخص سجود علی الارض پر قادر نہیں(قیام ورکوع پر قادر ہو یا نہ ہو) تو اس کے لیے کرسی پر نماز پڑھنا جائز ہے، وہ اس صورتِ ثالثہ میں حدیث کے الفاظ ”فعلی جنب“ سے استدلال کرتے ہیں ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب لیٹ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو کرسی پر بیٹھ کر بدرجہٴ اولیٰ اجازت ہونی چاہیے“۔
شیخ احمد عبد العزیز الحداد :
شیخ حداد آپ ا کے اس ارشاد: ”صل قائمًا ، فإن لم تستطع فقاعدًا، فإن لم تستطع فعلی جنب“کو بنیاد بناکر فرماتے ہیں کہ آپ ا نے قیام کو اسی صورت میں معاف فرمایا جب اس کی استطاعت نہ ہو، نیز آپ ا کا ارشاد : ” صلوا کما رأیتمونی أصلی“ سے استشہاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ا فرض نماز کھڑے ہوکر ہی ادا فرماتے تھے، سوائے مرض الموت کے ، معلوم ہوا کہ قیام نماز کے ارکان میں سے ہے تو اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے، اس کے باوجود قیام نہیں کرتا تو اس کی نماز ہی صحیح نہیں، کیوں کہ یہ نماز آپ ا کے قول وفعل کے مخالف ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص قیام سے عاجز ہو تووہ معذور ہے اور اس کے لیے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے، اگر وہ اس پر قادر نہیں تو چت لیٹ کر یا پہلو کے بل لیٹ کر نماز ادا کرسکتا ہے، نماز چوں کہ بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک صلہ ہے ، عبودیت کا راز ہے، تواسے بغیر کسی تساہل وتکاسل کے اسی طریقہ پر ادا کرنا چاہیے، جس طریقہ پر وہ فرض ہوئی، رہی نفل تو اسے قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر ادا کرنے کی گنجائش ہے، البتہ بیٹھ کر پڑھنے والا نصف اجر کا مستحق ہوگا، جیسا کہ آپ ا کے اس ارشاد سے ثابت ہوتا ہے:
” من صلی قائمًا فہو أفضل، ومن صلی قاعدًا فلہ نصف أجر، ومن صلی نائمًا أي راقدًا مستلقیًا أو علی جنب فلہ نصف أجر القاعد “ ․
شیخ نے اسی تحریر کے اخیر میں یہ فرمایاکہ اگر امام اس قدر لمبی قرأت کرتا ہے کہ مصلی اتنی دیر قیام کی سکت نہیں رکھتا تو پہلے تو امام کو فہمائش کرے کہ وہ اس قدر طویل قرأت سے باز آئے، لیکن اگر وہ باز نہیں آتا تو جس قدر قیام کا تحمل ہو قیام کرے اور عاجز آنے کی صورت میں کرسی یا زمین پر بیٹھ جائے، مگر ان دونوں صورتوں میں اپنی استطاعت کے مطابق وہ رکوع وسجود کا مکلف ہے۔(جاری)