Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1434ھ

ہ رسالہ

12 - 17
امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی کے مختصر حالات زندگی
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
تحریک مدح صحابہ کی تائید
ہندوستان بھر کے اہلِ سنت علماء کی کانفرنس بلائی گئی، جس میں حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی صاحب ،مولانا احمد سعید صاحب،ناظمِ جمیعت علمائے ہند، امام اہلِ سنت مولانا عبد الشکور لکھنو ی صاحب  ،سید سلیمان ندوی صاحب ،مولوی سید علی حسن صاحب ،مولانا عبد الرحیم فاروقی صاحب ، ظفر الملک علوی صاحب رحمہم اللہ حضر ات نے شرکت فر مائی اورحضرت مولانا قاری طیب صاحب  نے اپنے تحریری بیان کے ذریعے سے تحریک مدح صحابہ کی تائید فرمائی۔اس تحریک کے دوران آپ  اور آپ کے رفقاء کار کو کئی دفعہ پابند سلاسل اور پسِ دیوار زندان بھی جانا پڑا، مگر انہوں نے اسلام اور صحابہ کرام کی خاطر یہ سب کچھ بخوشی قبول کرلیا ۔اس تحریک کے نتیجے میں مسلمانوں میں دینی بیداری پیدا ہوئی، انہیں اپنے عقائد معلوم ہوئے اور مخالفین اسلام وصحابہ کرام کی سازشوں سے واقفیت ہوئی اور ان کے سدِباب کی کوششوں میں کام یابی حاصل ہوئی ۔

مناظرے ومباحثے
اسلام ایک دعوتی مذہب ہے ،دعوت کے دوران داعی کو کبھی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، مخالفین کو سمجھانے یا ان کے شکوک و شبہات اور دینِ بر حق پر ان کے اعتراضات کے دفعیہ کے لیے داعی کو مناظرہ و مباحثہ اور علمی مدافعت سے بھی کام لینا پڑتا ہے، انیسویں صدی میں ہندوستان میں عیسائیوں سے تو مناظروں و مباحثوں کا بازار گرم تھا ہی، اس کے ساتھ ساتھ اہلِ تشیع و اہلِ بدعت سے بھی مناظروں کی نوبت آگئی تھی۔․چناں چہ لکھنو میں 1892ء میں شیعوں کے ساتھ پہلا مناظرہ ہوا اس وقت مولانا عبد الشکور صاحب طالب علم تھے ،مولانا عین القضاة صاحب کے ساتھ آپ معاون خصوصی کے طور پر شریک ہوئے ۔ دوسرا مناظرہ لکھنو ہی میں ۱۹۰۸ء میں ہوا اور تیسرا مناظرہ مولوی سجاد لکھنوی سے ۱۹۱۰ء میں لکھنو میں ہوا، جس میں امام اہلِ سنت نے مدِ مقابل کو واضح اور یقینی شکست سے دو چار کیا ،ردِروافض کے سلسلے میں 1913ء ضلع سیوان (بہار) کا پہلا سفر اور اور1914 ء میں ضلع سیوان کا دوسرا سفر کیااور 1914ء میں ہی مناظرہ بمبئی اور 1918 ء میں مناظرہ چکوال ،ضلع جہلم پنجاب، 1920ء میں مناظرہ مکیریان ضلع ہوشیارپور، 1920ء میں مناظرہ امروہہ ضلع مراد آباد ،1922ء میں مناظرہ بشیر کوٹ ضلع چوبیس پرگنہ (مغربی بنگال)،1923ء میں مناظرہ کو لو تارڑ،ضلع گوجرانوالہ،1930ء میں مناظرہٴ منٹگمری ساہیوال کا مناظرہ ہوا جس میں امام اہلِ سنت نے مدِمقابل کوشرم ناک اور ذلت آمیز شکست سے دو چار کیا، اس کے علاوہ امام اہلِ سنت نے اہلِ بدعت ،قادیانیوں اورآر یہ سماج، غیر مقلدین ،عیسائیوں اور دیگر کئی گم راہ فرقوں اور ادیانِ باطلہ سے بھی مناظرے و مباحثے کیے اور اہلِ حق کی ترجمانی کے فرائض انجام دیے ۔

تصنیفات و تالیفات
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مولانا کو شروع ہی سے تصنیف وتالیف کے کام سے بے حد لگاؤ اور شوق تھا، اسی وجہ سے مولانا کی تالیفات بھی بہت زیادہ ہیں، یہاں ہم صرف ان کے ناموں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔

قرآن وتفسیرقرآن
ترجمة القرآنمسلک المرجان فی مصادر القرآن مقدمہ تفسیر آیات خلافت وامامت تفسیر قرآنیہ، یعنی قرآن کریم کی وہ آیات کریمہ جن کا آپ نے مخصوص انداز میں ترجمہ وتفسیر فرمایا ہے وہ درج ذیل ہیں :
تفسیر آیات استخلاف ،تفسیر آیات حفاظتِ قرآن ،تفسیر آیات تطہیر،تفسیر آیات میراث،تفسیر آیات قتال و مرتدین ،تفسیر آیات ولایت ،تفسیر آیات مکین ،تفسیر آیات دعوت ِاعراب،تفسیر آیات مباہلہ ،تفسیر آیات اولی الامر،تفسیرآیات ملک طالوت ،تفسیرآیات اظہار ِدین ،تفسیر آیات مدح مہاجرین ،تفسیر آیات تبلیغ،تفسیر آیات امامت،تفسیر آیات مذمت منافقین، تفسیر آیات متفرقہ ،تفسیر آیات معیت،تفسیر آیت رضوان وغیرہ۔ تحفة الانصاف لصاحب الاختلاف فی تفسیر آیت الاستخلاف،رسالہ ہدایت،بجواب”غوایت“․

سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم
مختصر سیرت قدسیہ ،سیرت الحبیب الشفیع من الکتاب العزیز الرفیع، نفحہ عنبریہ بذکر میلاد خیر البریة ،اردو ترجمہ شمائل ترمذی ، اردو ترجمہ چہل حدیث للامام شیخ احمد سر ہندی۔

فقہ و عقائد
علم الفقہ(4 جلدوں میں )اردو ترجمہ فقہ اکبر ،و صاف اردو ترجمہ ”الانصاف “۔

فضائل و مناقب اور سیر و سوانح
سیرت خلفائے راشدین،اول الموٴمنین ،اردوترجمہ اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، تنویر الایمان اردو ترجمہ تطہیر الجنان، کراماتِ موسویہ، الخطب الشوقیة فی حضرة المجددیہ،اردو ترجمہ تاریخ طبری،شجرة طیبہ ،راحة القلوب بذکر المحبوب․

تائیدِ حق ورد باطل
ابو الائمہ کی تعلیمات(مذکورہ کتاب عن قریب دارالکتاب لاہور سے تحقیق و تعلیق کے ساتھ طبع ہونے والی ہے) ،اردو ترجمہ ازالة الخلفاء بنام کشف الغطاء عن السنة البیضاء ،افاضة العینین علی شہادة الحسین ملقب بہ تحقیقی شہادت نامہ ،احیاء ا لمیت فی تحقیق الآل واہلِ البیت ،باقیات صالحات فارسی ترجمہ آیات بینات ،،مدح صحابہ کی مخالفت میں آیت قرآنی سے غلط استدلال اور اس کا جواب شیعوں کی معتبر کتابوں سے ،ارشاد الامم بجواب ”مصباح الظلم “قاطع اللسان بجواب ”دافع البہتان، نصرة الشریعہ شرح ”نصیحة الشیعہ“ ترجمہ وتحشیہ ”تحفہ اثنا عشریہ “عقلِ سلیم اور صراط مستقیم ،ائمہ اثنا عشر اور ان کا مذہب، القول الصواب․

تردید شیعیت
حرمتِ متعہ کا ثبوت آیتِ قرآنیہ سے ،کشف الاستار (استبصار کا ترجمہ اور تنقید )کشف اللفافہ لاظہارما فی النبوة والخلافہ،معجزة القرآن ،نصرة القرآن،قاتلانِ حسین کی خانہ تلاشی ،قصہ قرطاس کا مختتم فیصلہ ،تنبیہ الحائرین ،بحمایة الکتاب المبین ،تفضیح الجائرین(تکملہ تنبیہ الحائرین)انتصار الاسلام برد استقصاء الافحام ،مولوی اعجازحسین بدایونی کا جواب ،مناظرہ اور اظہارِ حق (9جلدوں میں )۔

مخالفین اہلِ سنت کے دو سو مسائل
(الاول من المائتین) اقامة البرھان علیٰ ان الشیعة اعداء القرآن(حصہ اول)، قطع الوتین من الذی یستبدل الشک بالیقین (حصہ دوم)، نہایة الخسران لمن ترک القرآن(حصہ سوم) اجوبة المتحرفین فی ترک الکتاب المبین (حصہ چہارم) ۔

(الثانی من المأتین)تحذیر المسلمین عن خداع الکاذبین (حصہ اول) الحجة القویة بذکر مواقع التقیة(حصہ دوم)، التحفة البہیةفی نتائج التقیة(حصہ سوم)․

(الثالث من المأتین)مسئلہ بداکی تحقیق، الرابع من المأتین شرح حدیث ثقلین ،الخامس من المأتین شرح مسئلہ امامتتین حصوں پر مشتمل ہے ، مقدمہ جائس ،النصرة الغیبیة علی الفرقة الشیعیة ․

ردِ قادیانیت و بدعت
اردو تر جمہ ازاحة العیب عن مبحث علم الغیب ، رفع النزاع عما یتعلق با لسماع،صداقت کا نشان بجواب نبی کی پہچان،ہدایت اہلِ امریکہ ،القول الاحکم ،نبوت کی ضرورت ،تحفہ محمدیہ،کتاب الصلٰوة ،تحفة الاسلام لجمیع الاقوا م، ان کے علاوہ بیس کے قریب مناظرے ومباحثے بھی ہیں جو مختلف عنوانات سے مطبوع ہوچکے ہیں ۔

فقہی جامعیت ، افکار و نظریات
مولانا لکھنوی صاحب استا ذ الاسا تذہ حضرت مولانا عبد الحئی فرنگی محلی اور فقیہ النفس حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی کے بیک واسطہ شاگرد تھے اور استاذ الوقت مولانا سید عین القضاة صاحب کے براہ راست شاگرد تھے، ا س لیے ان کا وہی فقہی مسلک تھاجو ان علماء کا تھا ،اسی طرح لکھنوی صاحب مولانا محمد علی مونگیری  اور مولانا خلیل احمد سہارن پوریصاحب کے بھی معتمدین میں سے تھے ،مزید برآںآ پ قدیم ہندی علماء میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویصاحب کے فقہی خیالات سے بھی متاثر تھے، چناں چہ وہ حنفی المسلک اور مقلد تھے ”تقلید“ کے جواز میں انہوں نے ایک رسا لہ ”درِ فرید“کے نام سے لکھا تھا، جو اب نا پید ہو چکا ہے ،النجم میں ایک موقع پر لکھنوی صاحب  نے لکھا:”ہندوستان میں با لخصوص امامنا الاعظم ابو حنیفہ  کی تقلید اہم واجبات میں سے ہے“،البتہ بعض مسائل میں آپ کی رائے دیگر علماء سے ہٹ کر ہے ۔

تردیدِ شیعیت کامجددانہ طرز
لکھنو کے مخصوص حالات اور وہا ں مقبول شیعی کی آمد اور شیعہ ذاکرین کی شر انگیزوں کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے، جن سے مجبور ہو کر علمائے اہلِ سنت نے مولانا عبد الشکور لکھنوی صاحب کو لکھنو میں قیام اور ردِ رافضیت پر کام کی دعوت دی تھی، لکھنوآکر لکھنوی صاحب  نے اس کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا، جہاں کہیں سن لیتے کہ وہاں اہلِ سنت کو تنگ کیا جا رہا ہے، یا جہاں کہیں بھی مناظرے کے چیلنج دیے جاتے تو مولانا فوراً وہاں پہنچ جاتے تھے ۔مولانا لکھنوی صاحب نے تقریباً اہلِ سنت اور روافض کے درمیان تمام نزاعی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور جس موضو ع پر آپ  قلم اٹھاتے تو اس موضوع کا حق ادا کردیتے تھے، چناں چہ یہ بات جب ان کی تصانیف میں دیکھی جائے تو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور مولانا کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ فریقِ مخالف کوعام طور سے انہی کے مذہب کی کتابوں سے غلط ثابت کرتے تھے ۔

ردِ شیعیت میں آپ کا تحقیقی کام اس سلسلے کے اور دوسرے موضوعات کے علاوہ خاص طور سے ان کے” عقیدہ تحریف قرآن “اور عقیدہ امامت “پر ہے، ان دونوں بنیادی عقائد پر جس شرح و بسط کے ساتھ آپ نے تحریری و تقریری بحث کی ہے وہ آپ کا خاصہ ہے اور انہی دونوں عقائد کی بنیاد پر آپ نے اس فرقہ کے بارے میں حتمی فیصلہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ شیعیت ایک مستقل دین ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،کیوں کہ جس کا ایمان اس موجودہ قرآن مجید پر نہ ہواور جو حضرت نبی صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کے متوازی ”عقیدہ امامت “کو مانتا ہو اس کا تعلق اسلام سے کچھ نہیں ہو سکتا ۔

لکھنو ی صاحب  کے نزدیک شیعہ موجودہ قرآنِ مجید کو محرف مانتے ہیں، اس لیے ان کا ایمان موجودہ قرآن مجید پر نہیں ہو سکتا اور جب قرآن مجید پر سے ایمان اٹھ گیا تو پھر اسلام سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہ سکتا ، بس یہیں سے ہماری اور ان کی راہ الگ ہو جاتی ہے، ا س مسئلہ کی بنیاد پر مولانا فرماتے ہیں :

”اس مسئلہ نے اب دوسرے مسائل میں شیعوں سے بحث کرنے کی حاجت نہیں رکھی ،اب نہ شیعوں سے ”مطاعن صحابہ“ کی بابت بحث کرنے کی حاجت، نہ مسئلہ ”امامت و خلافت “پر بحث کر نے کی ضرورت ،”نہ توہین انبیاء “میں ان سے الجھنے کی ضرورت اور” نہ متعہ وزنا وشراب خوری وتقیہ“وغیرہ پر رد وقد ح کی حاجت (باقی رہی)، جب ان کا ایمان ہی قرآن پاک پر نہیں ہے تو ان مباحث سے ان کا کیا تعلق ہے؟“۔

حضرت لکھنوی صاحب کا رجحان اس بات کی طرف ہے کہ رفض کی تکفیر کی بنیاد عقیدہ تحریف قرآن ہے اور اس پر ان کی جو تحقیق ہے وہ اس تحقیق میں تمام امت سے ممتاز ہیں اور تحقیق بھی ایسی کہ با وجود دنیائے شیعیت کے بڑے بڑے مجتہدین کو چیلنج دینے کے وہ اس کا رد پیش نہ کر سکے اور نہ کبھی کر سکتے ہیں اور لکھنوی صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ان کے ہاں تحریف قرآن کی روایتیں متواتر ہیں، غرض لکھنوی صاحب کی تحقیق کے مطابق ان کے کفر کی بنیاد عقیدہ تحریفِ قرآن ہے، تفصیل کے لیے ان کی کتاب ”تنبیہ الحائرین “ ملاحظہ فرمائیں ۔

عبادت و ریاضت
مولانا لکھنوی صاحب  انتہائی درجہ کے متبع سنت بزرگ تھے،آپ کے شب ِروزسنتِ نبوی کے آئینہ دار تھے، اپنے اعمال اور معمولات میں اخفا کا اہتمام کیا کرتے تھے ،زہد و قناعت میں اسلاف کا پر تو تھے ،رمضان المبارک میں اکابرو اسلاف کی طرح آپ کے یہا ں بھی اعمالِ خیر اور تلاوت، دعا ،نوافل ،ختم خواجگان ،درسِ قرآن وحدیث وغیرہ کا خوب اہتمام ہوا کر تا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت عطا فرمائی۔

وفات
1381ھ بمطابق1941ء میں دار المبلغین کے بالائی حصہ سے اترتے ہوئے گر گئے، جس سے علالت کا آغاز ہوا،پھر یہی علالت آگے چل کر مرض الموت میں تبدیل ہوگئی ،با لآخر17 ذوالقعدہ 1381ھ بمطابق 1942ء بروز دو شنبہ بعد نماز ِعصر4 بج کر بیس منٹ پر روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)

حضرت مولانامنظور نعمانی صاحب  نے غسل دیا صاحب زادگان اور دیگر علماء نے معاونت کی ،بلا مبالغہ جنازہ میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی، نمازِجنازہ حضرت کے بڑے صاحب زادے حضرت مولانا عبد السلام فاروقی صاحب نے پڑھا یا ا ور مرزا چپ شاہ میاں کے احاطہ میں تدفین عمل میں لائی گئی ۔

امام اہلِ سنت اپنے معاصر علماء کی نظر میں
مولانا حکیم سید عبد الحئی حسنی (صاحب نزھة الخواطر ) سابق ناظم ندوة العلماء لکھنوٴ(المتوفی1923ء)لکھتے ہیں :
”شیخ (وقت )فقیہ و عالم مولانا عبد الشکور ابن ناظر علی بن فضل علی کاکور ی مشہور علماء میں سے ہیں۔“ آگے مزید لکھتے ہیں : ”اس طرح انہوں نے شیعوں کے عقائد،ان کے خیالات اور ان تمام چیزوں سے، جن کو ان لوگوں نے اپنی مذہبی کتا بوں میں درج کر رکھا تھا، پردہ ہٹایا، جن سے اخص الخواص حضرات کے سوا عوام اور عام علماء نا واقف تھے، اس لیے وہ ہند اور بیرون ہند میں اس خاص علم میں یکتائے روز گار اور امام ِ وقت تسلیم کر لیے گئے، اس موضوع خاص میں ان کے معاصرین علماء میں کوئی بھی ان کا مدِ مقابل اور ہم پلہ نہیں ہو سکا سوائے اس کے کہ جس کا علم اللہ ہی کو ہے۔“ مزید لکھا ہے:

”ان سب باتوں کے با وجود انہیں تقویٰ و پرہیز گاری ،تواضع وانکساری ،اصلاح نفس ،ترک تکلف ،گوشہ نشینی،مداومت گریہ زاری ،زہد وتوکل اور ذکر و مراقبہ کی کی بھی دولت حاصل تھی “۔

مفتی اعظم ہند حضرت مولانا کفایت اللہ صاحب (المتوفی 1953ء) سابق صدر جمیعة علماء ہند لکھتے ہیں :
”جامع المعقول والمنقول، وحاوی الاصول والفروع، حضرت مولانا عبد الشکور صاحب لکھنوی ،مدیر النجم علماء احناف اہلِ سنت و جماعت میں ایک متبحر اور مقدس عالم ہیں ،مذاہبِ باطلہ خصوصاًشیعوں کے مقابلہ میں مولانا موصوف کی خدمات قابل قدر و تحسین ہیں ،حضرت مولانا اس کے مستحق ہیں کہ مذاہبِ باطلہ کے مقابلے میں اہلِ اسلام ان کو اپنا نمائندہ منتخب کریں“ ․․․․”مولانا عبد الشکور صاحب اس دور کے شاہ عبد العزیز ہیں“۔

محدث جلیل ابو الماثر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمی(المتوفی1992ء) لکھتے ہیں :
”میں نے امام اہلِ سنت کو سالہائے دراز تک ہزاروں مجلسوں میں، سینکڑوں جلوسوں میں سفر میں حضر میں اور اپنے گھر میں بھی ،درس دیتے ہوئے بھی ،وعظ فرماتے ہوئے بھی اور نماز پڑھتے ہوئے بھی ،سوتے ہوئے بھی، جاگتے ہوئے بھی ،ریل میں بھی ،پانی کے جہاز میں بھی ،ہندوستا ن میں بھی اور مکہ مدینہ و عرفات میں بھی ،مولانا اسباط کو سبق پڑھاتے ہوئے بھی، عبد الغنی کو کھلا تے ہوئے بھی ا ور مولانا عبد الرحیم صاحب کو ڈانٹتے ہوئے بھی، غرض ہر رنگ اور ہر حال میں بہت ہی نزدیک سے دیکھا ہے، ہزاروں صحابہ،تابعین وائمہ دین علماء و مشائخ ،صوفیاء و فقہاء ومحدثین کے تذکرہ اور حالات خوب پڑھ کر اور وسیع مطالعہ کر کے امام اہلِ سنت کی کتاب زندگی کا مطالعہ میں نے اپنی آنکھوں سے پوری بصیرت کے ساتھ کیا ہے، اس کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ کہ امام اہلِ سنت مرد با صفا وحق گاہ ،ہم رنگ کاملین واہل اللہ، عالم با عمل کے صحیح مصداق، علوم آلیہ وعالیہ میں فرد و طاق، صاحب ِ بصیرت، فقیہ اور نکتہ رس ،مفسر ، تحفظ ناموس صحابہ کے پر جوش حامی، رد شیعہ و احقاق حق میں اس عہد کے ابنِ تیمیہ اور شاہ عبد العزیز ،معارف صوفیہ حقہ سے کامل بہرہ ور،مکتوبات اما م ربانی کے حافظ ،نماز کے عاشق ،سنت کے شیدائی، دنیا سے بے رغبت اور حطام دنیا سے متنفراور مختصر یہ کہ وہ اس دور کے عالم ربانی تھے۔“ مزید آگے لکھتے ہیں :”حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ اپنے علمی و عملی کمالات کے لحاظ سے اس دو ر میں بے نظیر اور ان کی شخصیت بالکل منفرد شخصیت تھی “۔

حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب (مدیر الفرقان) (المتوفی1997ء ) لکھتے ہیں :
”ہمارے دینی اور علمی حلقوں میں حضرت مولانا کی شہرت مسلک اہلِ سنت کے ایک لائق اور کام یاب مناظر و متکلم کی حیثیت سے رہی ہے اور اس کام کے لیے یہ واقعہ ہے کہ ہمارے اس زمانے میں کسی خاص درجہ کے رسوخ علمی کی ضرورت نہیں رہی ہے، اس لیے جن لوگوں کو مولانا کے قریب رہنے کا زیادہ اتفاق نہیں ہوا ان کو غالباً بالکل اندازہ نہیں ہوگا کہ ممدوح صرف مناظر اور مصنف ہی نہیں، بلکہ علمائے راسخین میں سے تھے، نام ور اصحاب درس کی سی ٹھوس علمی استعداد اور اپنے علمی دائرے میں مطالعہ بہت وسیع تھا، اس کے ساتھ قدرت نے حافظہ بھی بے نظیر دیا تھا ،راقم السطور نے اپنی عمر میں بہت کم ایسے قوی الحافظہ دیکھے ہیں “۔

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ (دار العلوم دیوبند ) (المتوفی1928ء)لکھتے ہیں :
”حضرت مولانا عبد الشکور صاحب لکھنوی کی مساعی جمیلہ وخدمات اسلامیہ ،جو انہوں نے ادیان باطلہ کی تردید اور فرق ضالہ کے ابطال وازہاق میں فرمائی ہیں وہ ہر طرح پسندیدہ و مستحسن ہیں، در حقیقت حضرت مولانا نے تمام اہل سنت و جماعت کی طرف سے اس فرض کفایہ کو ادا فرماکر سب کو مرہون منت و سبک دوش فرمایا ہے۔“مزید آگے لکھتے ہیں :”ہم ان کو ہمیشہ کے لیے فرق ضالہ کے مقابلہ میں اپنا نمائندہ منتخب کر تے ہیں اور ان کا ساختہ و پر داختہ اور ان کی ہار جیت کو اپنی ہار جیت تصور کرتے ہیں“۔

حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ (سابق ناظم مظاہر العلوم سہارن پور ) (المتوفی1979ء)لکھتے ہیں :
”حضرت مولانا علوم آلیہ اور عالیہ دونوں میں یکساں دست گاہ رکھنے والے متبحر عالم تھے ،قدیم بزرگانہ وضع اور سادگی کا پیکر تھے ،وہ مجددی تھے اور ان کے کارناموں میں اس چیز کاایک مخصوص رنگ نما یا ں تھا، وہ فاروق وفارق بین الحق والباطل بھی تھے اور فاروقی بھی، ان کی ذاتِ گرامی مجموعہ کمالات تھی ۔“

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب (سابق ناظم دار العلوم ندوة العلماء لکھنو) (المتوفی 1999ء) لکھتے ہیں :
”مولانا اس وقت دنیائے اسلام کے ممتازترین علماء و مصلحین اور ان کے چند برگزیدہ شخصیتوں میں سے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے تاریخ اسلام کے مختلف زمانوں میں خاص اصلاحی اور تجدیدی کام لیا ہے، وہ علاوہ اس کے کہ ایک متبحر عالم اور عمیق النظر فقیہ تھے، ایک کام یاب مصنف اور متکلم صاحبِ سلوک اور صاحب ِسلسلہ شیخ اور خوش بیان مقرر بھی تھے ۔“

حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب  (سابق ناظم جمیعة علمائے ہند) (المتوفی1975ء)لکھتے ہیں :
”انتہائی رنج و غم کا مقام ہے کہ علم و فضل کا ایک اور آفتاب غروب ہوا ،دنیائے اسلام کے مقبول ترین اور مشہور فاضل اجل امام اہلِ و سنت وجماعت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی صاحب کے دینی اصلاحی اور کلامی خدمات سے مسلمانان ہند نصف صدی تک فائدہ اٹھاتے رہے ہیں،مرحوم صاحب تصنیف اور اہلِ قلم تھے، مجلہ النجم کے ادارتی فرائض بھی انجام دیتے رہے،بہت سی عربی اور فارسی کتابوں کو اردو کا جامہ پہنایا،فقہ پر چھ سات جلدوں میں ایک مبسوط کتاب لکھی “۔

حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی و بانی تحریک خدام اہل سنت ،چکوال لکھتے ہیں :
”آپ حقیقی معنوں میں امام اہل ِ سنت و جماعت ہیں اور مذہب اہلِ سنت و جماعت کے تحفظ اور خلفائے راشدین اور حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے جمیع صحابہ واہل بیت کے دفاع کا فریضہ ادا کر نے میں وہ اپنے دور کے عظیم محسن ہیں،آپ کو اللہ تعالیٰ نے سنی شیعہ نزاعی مسائل میں ایک اجتہادی شان عطا فرمائی تھی، آپ نے فاروقی اور مجددی نسبتوں کو مال و جاہ کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ توفیق ربانی سے حضرت فاروق اعظم  اور امام ربانی مجدد الف ثانی کی عظیم نسبتوں کا پرچم بلند کیا “۔

سید علی مطہر نقوی صاحب امروہی ،متوطن کراچی لکھتے ہیں :
”مولانا موصوف کے علمی و دینی مقام کے تعین کے اصل مجاز تو علماء اور اربا بِ فہمِ بصیرت ہی ہیں، مگر مجھ نا چیز کا تا ثر یہ ہے کہ پوری تا ریخ اسلامی میں امامِ موصوف کو مذہب مذکورہ بالا کی تحقیق اور اس کے متوازن تجزیہ میں اللہ تعالیٰ نے مجد د اور حجة اللہ فی الار ض بنا کر بھیجا تھا“ ۔

ہندوستان میں تبلیغی سلسلہ کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی (المتوفی1944ء) ایک بار تبلیغی اجتماع کے موقع پر 1943ء میں ایک بڑی جماعت کے ساتھ دار العلوم ندوة العلماء لکھنو تشریف لائے تھے، اس موقع پر آپ نے دار العلوم کے کچھ اساتذہ کی مو جودگی میں مولانا معین اللہ صاحب ندوی کو مخاطب کر کے فرمایا :”میاں مولوی معین اللہ حضرت مولانا عبد الشکور صاحب کو جانتے ہو ؟انہوں نے عرض کیا! ہاں!حضرت جانتا ہوں اور زیارت بھی کی ہے ۔فرمایا :نہیں !تم نہیں جانتے۔ پھر فرمایا:”وہ امام ِ وقت ہیں، ان مشرقی دیار میں حضرت مولانا عبد الشکور صاحب کا وہی مقام ہے جو ہمارے مغربی دیا ر میں حضرت تھانوی کا تھا “۔

شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب (المتوفی،1949)نے ایک موقع پر فرمایا :”شیعوں کے متعلق مولانا عبد الشکور صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ شیعہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں اور ہم مولانا عبد الشکور صاحب  پر اعتماد کرتے ہیں “۔

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب (المتوفی،1977)نے اپنے ایک تبصرہ میں لکھا :
”حضرت مولانا عبد الشکورصاحب قدس سرہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، حق تعالیٰ شانہ نے ان کی زبان و قلم سے حفاظت سنت اور رد روافض وبدعت کی عظیم خدمت لی ،جس کی بنا پر انہیں ”امام اہل سنت “کا خطاب عطا کیا گیا، جب تک ”النجم “لکھنو حضرت کی ادارت میں جاری رہا ہندوستان اور ایران کے تمام روافض مل کر بھی اس کا مقابلہ کر نے سے عاجز رہے“۔

آپ کی وفات پر بہت سارے شعراء نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا، عبدالرشید خان قمر افغانی لکھنوی کا کلام پیش خدمت ہے :
اپنی مثال عالمِ اسلام میں تھا
یکتائے عالمان زمانہ کہیں جسے
سب ہیں امام اہلِ تسنن نہیں کوئی
غماض سنت شہ بطحا کہیں جسے
عبد الشکور بانی دار المبلغین
اسلام کا مبلغ اعلیٰ کہیں جسے
روشن کیا ہے محفل دنیا میں وہ چراغ
حل کردہ مسائل عقبا کہیں جسے
رخصت ہوا ہے آج وہ کچھ اس طرح قمر
بے ساختہ مشیت مولیٰ کہیں جسے
Flag Counter