Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1434ھ

ہ رسالہ

11 - 17
عصرحاضرکا چیلنج ،قرآن اورسیرت نبوی کا پیغام
مولانا اسرار الحق قاسمی

عصرحاضرمیں انسانوں کے سامنے جوبڑے بڑے مسائل پیدا ہو گئے ہیں ان میں ایک بڑامسئلہ مادّہ پرستی ہے کہ آج نفسانفسی کا عجیب عالم ہے ۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آتے تھے، مگرآج کی مادی زندگی نے ساری انسانی قدروں کوپامال کر دیا ہے ۔ اخلاق کا دیوالیہ نکل گیاہے ،روحانی قدریں ایک ایک کرکے مٹ رہی ہیں۔تہذیب وشرافت زندگی سے رخصت ہوتی جارہی ہے۔عصرحاضرکی پوری تہذیب ہی بے خداہوکررہ گئی ہے ۔آج مذہب بھی فقط کلچرکا حصہ بن کررہ گیاہے ۔عملی زندگی میں انسان مذہب پر عمل کرناضروری نہیں سمجھتا،بس! اس کوماضی کی ایک چیز سمجھتاہے۔آج کا انسان بغیرخداکے حوالہ کے اور بغیروحی الٰہی کے اوربغیرکسی مذہبی ،روحانی اوراخلاقی روایت کے زندگی گزرلیناچاہتاہے ۔تہذیب جدیدکا نعرہ کہ” زندگی تھوڑی سی ہے“ لہٰذاکھل کرعیش کرلو،داد عیش دے لو،اس کے بعدنہ کوئی زندگی ہے اورنہ کوئی حساب وکتاب۔ نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کا آوے کا آواہی بگڑکررہ گیاہے اوربالکل وہی تصویر سامنے آگئی ہے جس کوقرآن نے یوں بیان کیاہے، کہ ﴿ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس﴾خشکی اورتری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھ کی کمائی کے باعث تاکہ ہم ان کوکچھ ان کے کرتوتوں کامزہ چکھادیں،شائدکہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ (الروم:41 )

اس صورت حال میں ہمیں قرآن سے ہدایت لینی ہے، کیوں کہ اس کا خطاب ساری انسانیت سے ہے ۔تمیز رنگ و نسل ،مقام اوروقت کے بغیر وہ انسان کو زندگی کے انفرادی، اجتماعی، مادی، روحانی، تمام مراحل میں راہ نمائی دیتاہے۔اس کی ہدایت صدر مملکت سے لے کر ایک عام آدمی ،مال دار غریب سب کے لیے یکساں ہے اور صلح و جنگ ،روحانی ارتقا اورمادی ترقی سب میدانوں کے لیے ہے۔قرآن پاک مذہب کی ایک بلیغ تشریح کرتاہے ۔وہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کے اسماء و صفات اورزندگی کے پورے نظام پر گفتگو کرتا ہے ۔چناں چہ ارشاد ہے:

”تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا اوربڑا مہربان ہے۔ “ (البقرہ:163)

خدا ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا نہ کوئی شریک ہے ،نہ بیٹا ،نہ ہم سر اوراس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ خدا کے مشابہ کوئی نہیں اوراس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے مماثل نہیں۔اسی طرح قرآن خدا کے لیے انسانی صفات و حدود استعمال کرنے سے روکتا ہے : ”اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔“ (النساء:36)

چوں کہ خدائے واحد اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے، اس لیے صرف اورصرف اسی کے آگے سرجھکاناہوگاکہ آخر سب کو اسی کے پاس جانا اور اپنے کا موں کا حساب دیناہے۔جہاں اچھے کاموں پر انعام اوربرے کاموں پر سزاملے گی ۔قرآن زندگی بعد موت کے یقین ،خدا کے سامنے جواب دہی ،یوم حشر ،دوزخ و جنت کا وجود اوروحی کی صداقت اوراس کی ضرورت وغیرہ سب باتوں کوبیان کرتاہے۔

”قیامت کے دن ہم درمیان میں لارکھیں گے، ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔“(الانبیاء:47)

قرآن میں دوسری تہذیبوں اوراقوام و ملل کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، ماضی کی قوموں کی تاریخ کا یہ مستند بیان خود اس بات کی گواہی ہے کہ قرآن کتاب الہٰی ہے اورخدا ئے بزرگ و برتر کا کلام ہے، کوئی انسان ایسا معجزہ تخلیق نہیں کر سکتا، فرمایا:

”اوریہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ(کی وحی)کے بغیر اپنے جی سے گھڑ لیا گیاہو،بلکہ یہ تو(ان کتابوں)کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے قبل (نازل)ہوچکی ہیں اورکتاب (احکام ضروریہ)کی تفصیل بیان کرنے والا ہے، اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔“(یونس:37)

قرآن لوگوں کو وہ ہدایت دیتاہے جس سے وہ صحیح اورغلط اورجھوٹے وسچے میں فرق کرسکیں۔جس کے بغیر انسان یقینا خسارہ میں پڑجائے گا۔ جیساکہ فرمایا:

”ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتاراگیا، جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اورجس میں ہدایت کی اورحق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔“ (البقرہ:185)

چوں کہ اللہ واحد ہی تنہا اس کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، لہٰذا کسی اورکی خدائی کا اقرارہی ظلم وفسادہے ۔اسی طرح قرآن اس چیز کو بھی سختی سے مسترد کرتاہے کہ خدائی صفات کو اس کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب کیاجائے۔جس عقیدہ کی قرآن دعوت دیتاہے وہ بہت سادہ ہے۔اس کا کلمہ ہے”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اورمحمد اللہ کے رسول ہیں۔

قرآن پاک افراد کی شخصیتوں کو ایک صالح سانچے میں ڈھال کر ایک آئیڈیل معاشرہ کی تعمیر چاہتا ہے، جہاں خیر و فلاح پروان چڑھیں اور بدی و برائی کا خاتمہ ہوجائے۔اس نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ ہر فردبشر خالق کائنات کے آگے جواب دہ ہوگا۔قرآن کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ بس احکامات صادرکرے، بلکہ وہ لوگوں کو تعلیم دیتا اور دلائل سے انہیں قائل کرتاہے کہ وہ اس کے احکام کی مقبولیت اورفائدوں کو سمجھ جائیں۔قرآن پاک میں نہ عقل و منطق کے خلاف کچھ ہے، نہ ا س میں کسی چیز کو غلط ثابت کیاجاسکتاہے۔ اس کا کوئی حکم اس کی کوئی آیت غیر منصفانہ یا بھٹکانے والی نہیں ہے۔شروع سے آخر تک پوری کتاب صداقت و حکمت کا لازوال خزانہ ہے ۔انسانی تہذیب کے لیے وہ بہترین فلسفہ حیات اورمنتخب قانون ہے وہ انسان کو سیدھے راستہ کام یابی اورسلامتی کی طرف راہ نمائی کر تاہے۔

قرآن کی اہم ترین صفت اس کی عملیت ہے ،وہ کبھی آرزؤوں میں جینا نہیں سکھاتا ،نہ اس کی تعلیمات ناممکن چیزوں اورتصورات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ قرآن آدمی سے اسی چیز کا مطالبہ کرتاہے جو وہ کر سکتاہو۔قرآن انسان کووہ ساری تعلیمات دیتاہے جن کی بنیادپر وہ عصرحاضرکے سارے چیلنجوں سے نمٹ سکتاہے اوردنیاوآخرت میں کام یاب ہوسکتاہے ۔

قرآنی تعلیمات کی عملیت حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھادی ہے، آپ کے بعد مسلمانوں نے بھی ان کو برت کر دکھایا ،قرآن کی عمومی راہ عام فلاح انسانی کی راہ ہے ،وہ انسان کو اتنے کا ہی مکلف بناتاہے جتنا وہ کرسکے۔ حکمت قرآنی جامع و شامل ہے، وہ نہ مادہ کو مستر دکرتی ہے نہ روح کو نظر انداز کرتی ہے،نہ وہ خدا کو انسان کے مقام پر اتارکرلاتی اورنہ انسان کوخدا کے مقام پر پہنچاتی ہے۔ہر چیز کو کامل توازن کے ساتھ اس کا صحیح مقام دیتی ہے۔

”حقیقت کو سمجھانے کے لیے قرآن مختلف و متنوع اسالیب اختیار کر تاہے، وہ قصے بیان کرتاہے ،ضرب الامثال اورتاریخی شہادتیں لاتاہے کہ انسان صحیح راستہ پرآ جائے اوریہ جان لے کہ ماضی میں مختلف اقوام کن چیزوں سے تباہ ہوئی تھیں۔یقینا ان کے بیان میں عقل والوں کے لیے نصیحت و عبرت ہے۔“(یوسف:111)

قرآن زندگی کا کامل دستور ہے اورانسانی زندگی کے جملہ شعبوں کو محیط ہے چناں چہ اس میں بین الاقوامی تعلقات،تجارت و کاروبار، اقتصادیات ، سیاسیات ،شادی بیاہ ،نکاح و طلاق اورمیراث وغیرہ کے قوانین بیان ہوئے ہیں۔ البتہ اس قرآن پر ہم کس طرح عمل کریں گے اورکس طرح انسان اس کی روشنی میں آج کے چیلنجوں کا سامناکرسکتاہے؟ یہ ہمیں صاحب ِقرآن صلی الله علیہ وسلم سے معلوم کرناچاہیے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں ہی شتربے مہارنہیں چھوڑتا۔اس نے محمدصلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی اورقرآن پاک کوآخری کتاب قرار دے کر انسان اورخدا کے مابین رابطہ کاایک مستقل ذریعہ اورایک لازوال مینارہ ٴنور پیداکردیاہے۔قرآن بالکل صاف صاف الفاظ میں اعلان کرتاہے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم تمام انسانو ں کی طرف رب السماوات والارض کی جانب سے بھیجے گئے ہیں ۔وہ رحمت للعالمین بناکرمبعوث کیے گئے ہیں جو صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ انسان و غیر انسان سب کے لیے یکساں رحمت ہیں۔ اوروہ خاتم النبیین ہیں ۔قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اورتمام مسلمانوں اورسارے انسانوں کو اس پر غورفکرکرنااورعمل کرناچاہیے۔محمد صلی الله علیہ وسلم سادہ طورپر محض کسی ایک قوم کے لیے ہیرو یا نجات دہندہ نہیں، وہ سبھی انسانوں کے لیے نجات دہندہ ہیں۔محمد ا کا پیغام کل بھی ایک عالمی تبدیلی کانقیب تھا، آج بھی ہے۔ وہ سب کے لیے رحمت ہے، سب کے لیے عظیم ورثہ اورزندہ جاوید روحانی نوید ِنجات ہے۔ 
Flag Counter