قومیت وعصبیت
محترم مسعود عظمت
زمانہ ماقبل اسلام میں جب دنیا کی آبادی زیادہ نہ تھی تو دنیا کی چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں ، مشرقی، مغربی، شمالی، جنوبی۔ ہر ایک قوم دوسری قوم سے مختلف طور طریقے، رسم ورواج اور انساب کے اختلاف کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسری قوم سے جداشمار کرتی تھی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، خاندانوں میں اضافہ ہوتا گیا تو اس صورت میں نسبی اور خاندانی بنیادوں پر قومیت کا تصور اُبھرا۔
عرب کے اندر اسی طرح کے کئی قبیلے وجود میں آگئے، ہر ایک کا خاندانی نظام دوسرے سے مختلف ہوتا تھا، عرب کے ہر ہر قبیلے کے ہر شخص میں قومیت وعصبیت کا رواج جڑ پکڑ چکا تھا، جس کی وجہ سے ان کے درمیان سالوں جنگیں چلتی رہتیں اسی طرح ہندوستان کے اندر بھی قومیت پر مختلف قبیلے وجود میں آگئے، انسانوں کے مختلف طبقات بنا دیے گئے ، برہمن، کھشتری، شودر، جن میں سے بعض کو اونچا درجہ دے دیا گیا اور بعض کو انسان سمجھنا بھی گوارہ نہ کیا گیا۔
بعثت نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد قومیت وعصبیت کے بت توڑے گئے، انسانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا گیا، الله تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کے ذریعے بھٹکے ہوئے بندوں کو بتایا ”لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا ( یعنی آدم) اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت ( پیدا کرکے) پھیلا دیے۔“ ( النساء:1)
اسی آیت کی تشریح کرتے ہوئے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع فرمایا:”لا فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی، ولالابیض علی اسود، ولا لاسود علی ابیض، الا بالتقویٰ“․ ( رواہ احمد)
فرمایا: کسی عربی کو عجمی پر، یا عجمی کو عربی پر، یا کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور فضیلت کا مدار صرف تقوی ہے۔
اسلام کی آمد نے تمام انسانوں کو ان کا مقام دے دیا، انسانوں نے اپنے ذہنی تخیل کے ذریعے جو طبقاتی تقسیم کر دی تھی، انسانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا تھا اسلام نے اس کو آکر ختم کر دیا، ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی بنا دیا پھر فرمایا کہ مسلمان جسدِ واحد کے مانند ہیں کہ جسم کے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو اس سے تمام جسم بے چین ہو جاتا ہے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے، اس کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے دیا تھا جو دوسروں کے لیے نمونہ بن گئے تھے، قبائلی ونسبی جھگڑوں کو ختم کرکے آپس میں بھائی بھائی کے رشتہ میں جوڑ دیا ،ان لوگوں کی ایسی ترتیب کی کہ مہاجرین نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو انصار مدینہ نے ان کو اپنی جائیداد، مال ودولت وغیرہ میں شامل کر دیا۔ دنیا میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
جوں جوں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے سے زمانہ دور ہوتا گیا طبیعتوں میں سستی کاہلی آتی گئی، عبادات ومعاملات میں کمی اور کوتاہی شروع ہو گئی، قبائلی ونسبی جھگڑے پھر کھڑے ہو گئے، غرور وتکبر کے بتوں کو پھر سے سجا دیا گیا، قومیت وعصیبت کے بتوں کی پھر سے پوجا پاٹ شروع ہو چکی، قتل وغارت ڈاکا زنی، دھوکہ دہی جھوٹ وفراڈ عام ہوتا گیا۔
اقوامِ عالم میں مسلمان، جو انتہائی ترقی یافتہ قوم شمار کیے جاتے تھے، پستی میں گرا دیے گئے، مسلمانوں کے اندر قومیتیں بن گئی، عربی، ترکی، عراقی سندھی، مصری، شامی، نجدی ، حجازی، یمنی، پٹھان، سندھی، بلوچ اور پنجابی کی تقسیم شروع ہو گئی۔
ہر ایک قوم اپنے کو دوسرے سے بلند تصور کرنے لگی، اس بات پر لڑائی جھگڑے ہونے لگے، آج بھی مسلمانوں کے اندر قومیت وعصبیت کی تخم ریزی اس انداز میں کی گئی ہے کہ مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے، معمولی معمولی بات پر قتل وغارت ایک روایت بن گئی، اسلام نے آکر جن چیزوں کو مٹا دیا تھا آج انہی چیزوں کے نعرے بلند کیے جارہے ہیں، قومیت کے نعرے ہوں، یا حقوق کے نعرے ہوں ،اپنی قوم کی ترقی کے نعرے ہوں یا دوسرا نعرہ، یہ جاہلیت کے وہی نعرے ہیں جن کو آکر اسلام نے ختم کیا تھا، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ” جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے اس طرح کی عصبیت کی وجہ سیغصہ کا اظہار کر ے یا عصبیت کی طرف لوگوں کو بلائے یا قومیت کی بنیاد پر کسی کی مدد کرے، پھر وہ مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی اور جومیری امت کے خلاف تلوار اٹھائے، نیک وبد ہر ایک کو قتل کرے اور مؤمن کے ایمان کا لحاظ کرے، نہ کسی عہد والے کے عہد کو پورا کرے ،اس کا مجھ ( یعنی میری جماعت) سے کوئی تعلق ہے، نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ ( مسلم:128/2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قومیت ولسانیت کی طرف دعوت دے اس کا میری جماعت سے کوئی تعلق ہی نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے تعلق توڑنے کی بات کی ہے کہ اس کا مجھ سے تعلق ہی نہیں ہو سکتا جو مسلمانوں کو قتل کرے اور ان کا بے دریغ خون بہائے۔ ملک وقوم کے اور اسی طرح قومیت کے نعرے بلند کرکے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، آئے روز بیسیوں لوگ قتل ہو جاتے ہیں، کئی خان دانوں کے چشم وچراغ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ،جن کے پیچھے ان کے گھر کی کفالت کرنے والا ان کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ حضرت واثلہ بن اسقع نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پوچھا یا رسول الله! عصبیت کیا چیز ہے ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرو۔ مطلب یہ کہ مسلمان اپنی قوم کو غلطی پر دیکھے، پھر بھی وہ اپنی قوم کی حمایت کرے تو یہ عصبیت ہے۔
آج مسلمانوں کے اند رجہاں دینی کمزوری زیادہ ہے وہاں یہ چیزیں بھی زیادہ پائی جارہی ہیں کہ ایک مسلمان اپنی قوم کا ساتھ دیتا ہے، خواہ اس کی قوم ظالم ہی کیوں نہ ہو اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون اس لیے بہاتا ہے کہ وہ دوسری قوم کا آدمی ہے، اس کی زبان ہماری زبان سے مختلف ہے، اس کا علاقہ ہمارے علاقہ سے الگ ہے، آج مملکت پاکستان میں کہیں سندھی، پنجابی کی لڑائی چل رہی ہے اور کہیں پٹھان اور مہاجر کی لڑائی چل رہی ہے ،یہ وہی پرانے بد بودار نعرے ہیں جن کو اسلام نے آکر ختم کر دیا تھا، ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، لیکن زمانہ کی گردش نے مسلمانوں کو اسی دوراہے پر لاکر کھڑا کر دیا جہاں سے امت مسلمہ کا انحطاط وزوال شروع ہوا، ان جھگڑوں، خاندانی وقبائلی، صوبائی ولسانی عصبیتوں کی وجہ سے مسلمانوں کے حصیبخرے کر دیے گئے، آج وہی طریقے وہتھکنڈے مملکت پاکستان میں اختیار کیے جارہے ہیں، تاکہ مسلمانانِ پاکستان کی وحدت ویکجہتی کو پارہ پارہ کر دیا جائے، ان کے اتحاد کو ختم کر دیا جائے، آج بھی مسلمانانِ پاکستان کے پاس وقت ہے کہ وہ ان اختلافات کو پس پشت ڈال کر آپس میں مل بیٹھیں، صوبائی ولسانی جھگڑوں کو ختم کرکے پھر سے ایک ہو جائیں اور دنیا کو بتا دیں کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے او رمسلمان جسدِ واحد کے مانند ہیں۔ آج ہم سیرت نبی اپر عمل کرکے دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔