عصمت انبیا پر استدلال
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
شفیع کون لوگ ہوں گے؟
شفعاء کے مبارک گروہ میں انبیائے کرام کی مقدس جماعت، اپنا لہو بہا کر اسلام کے گلستان فکر کو سینچنے والے عاشقانِ پاک طینت، نبی کے اسوہ حسنہ میں ڈھل جانے کی کوشش کرنے والے صلحائے امت ، اطاعت الہی سے سرشار ملائکہ عظام سبھی شامل ہیں۔ (وشفاعة الانبیاء حق) … وکذا شفاعة الملائکة… وکذا شفاعة العلماء والأولیاء والشھداء والفقراء)․ (شرح کتاب فقہ الاکبر، للملاعلی القاری، ص:160)
اہلسنت کے مسلک شفاعت پر چند شبہات او ران کے جوابات
پہلاشبہ… گناہ کبیرہ کی شفاعت کا عقیدہ رکھنے سے گناہوں میں جرأت پیدا ہو جاتی ہے ،اس لیے شفاعت کو صغائر تک محدود رکھا جائے۔
جواب… یہ شبہہ اس وقت پیدا ہونا چاہیے جب ہم شفاعت ہر مسلمان کے حق میں واجب ہونے کاعقیدہ رکھتے ہوں، ہم تو صرف جواز شفاعت کے قائل ہیں، صرف اس بنا پر معاصی پر جرأت کیوں کر ہو گی ؟ (…ولان فی اثبات الشفاعة لأصحاب الکبائر تحریض الناس علی الذنوب، وانہ لایجوز… قلنا: لیس کذلک، فإنا لانحکم بوجوب الشفاعة لیأمن العبد العذاب، ویتکل علی الشفاعة، ویتجرأ علی الذنوب، بل نقول بجوازھا وتصورھا فی حق کل فرد من اصحاب الکبائر․ (حاشیة علی المسایرة شرح المسامرة ، ص:214)
دوسرا شبہ: علامہ زمخشری عفا الله عنہ اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ کلام عرب میں جہاں کہیں بھی اسم نکرہ کسی نفی کے تحت واقع ہوتو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے ،لہٰذا اس آیت کریمہ ﴿ولایقبل منھا شفاعة﴾ میں لفظ شفاعة نکرہ ہے او رنفی ( لایقبل) کے تحت واقع ہے، لہٰذا اس کی عمومیت کاتقاضا یہ ہے کہ قیامت کے دن کسی کے حق میں کسی کی شفاعت قبول نہ ہو گی۔
جواب… اس میں کوئی شک نہیں جونکرہ تحت النفی واقع ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے، لیکن یہ بھی بلاغت کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر عمومیت میں کچھ تخصیصی پہلو بھی پائے جاتے ہیں، سوائے اس عام کے جس میں تخصیص عقلاً محال ہو،آیت مذکورہ میں عمومیت کی تخصیص دیگر آیات اور احادیث متواترہ سے ہو رہی ہے، جنہیں ہم گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کر آئے ہیں۔ علامہ زمخشری عفا الله عنہ نے اپنے اعتزالی عقیدے کے تحفظ کے لیے ادھورا قاعدہ بیان کرکے علمی چکمہ دینے کی کوشش کی ہے۔ (وکذلک قولہ تعالی: ﴿ویقبل منھا شفاعة﴾ اورد الزمخشری ھذا اللفظ العام علی ظاہرہ لأجل اعتزالہ وانکارہ وشیعتہ للشفاعة، ولم یذکرتاویلہ ولا تخصیصہ، ولا شک ان النکرة مع النفی من الفاظ العموم، لکن الفاظ العموم للتخصیص إلا ما منع برہان العقل من تخصیصہ… (التمیز لما اودعہ الزمحشری من الاعتزال فی تفسیر الکتاب العزیز، البقرة تحت آیہ رقم:48)
خوارج او رمعتزلہ کے نزدیک شفاعت کا مفہوم
شفاعت بمعنی عفو ودرگزر قرآن وسنت کے دلائل قطعیہ او راجماع سے ثابت ہے، اس لیے معتزلہ و خوارج علی الاطلاق مسئلہ شفاعت کاانکار تو نہ کرسکے، لیکن اس کا مفہوم بگاڑ دیا، چناں چہ ان کے نزدیک شفاعت اہل صغائر کی مغفرت اور اہل ایمان کے رفع درجات کا نام ہے۔ ( ان المعتزلة قصروھا علی المطیعین والتائبین لرفع الدرجات وزیادة المثوبات․ ( شرح المقاصد، المقصد السادس:3/399) ”وأما تاویلھم احادیث الشفاعة بکونھا مختصة بزیادة الدرجات فباطل․“ (شرح الطیبی، کتاب احوال القیامة، تحت الحدیث رقم:5598)
خوارج ومعتزلہ کے چند دلائل او ران کا علمی تجزیہ
خوارج ومعتزلہ کی پہلی دلیل اور اس کا علمی تجزیہ:
خوارج ومعتزلہ اپنے موقف پر ان آیات کو پیش کرتے ہیں جن میں مطلقاً شفاعت کی نفی کی گئی ہے ۔﴿ولا یقبل منھا شفاعة﴾․ (البقر:48) ﴿وما للظالمین من حمیم ولا شفیع یطاع﴾․ (غافر:18) (کوئی نہیں گناہ گاروں کا دوست اور نہ سفارشی)
علامہ تفتازانی رحمہ الله نے اس استدلال کے چار جوابات پیش کیے ہیں۔
1... آیات مذکورہ میں شفاعت کی نفی صرف کفار سے متعلق ہے کہ ان کے حق میں کوئی سفارش قابل قبول نہ ہو گی، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نفی عام ہے، کفار ہوں یا مؤمنین ،کسی کو کسی کی سفارش فائدہ نہ دے سکے گی ۔
2... تو پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ نفی قیامت کی کسی خاص گھڑی اور لمحے سے متعلق ہے جس میں کوئی سفارش قبول نہ ہو گی ، قرآن کریم کی آیت میں ﴿من ذالذی یشفع عندہ إلا بإذنہ﴾․ ( البقرة:255) ( ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے) میں اسی گھڑی کی طرف اشارہ ہے، بالفرض اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ نفی قیامت کے ہر لمحے اورانسانیت کے ہر فرد سے متعلق ہے ۔
3... تو اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ نفی کسی حال کے ساتھ مخصوص ہے ،مثلاً جب کسی کے جہنم میں جانے کا قطعی فیصلہ صادر ہوچکا ہو گا تو پھر سفارش کوئی فائدہ نہ دے گی، اگر تمام ازمنہ ، تمام احوال، تمام اشخاص کے حق میں شفاعت کی نفی اور غیر مفید ہونے کو تسلیم کر لیا جائے تو چوتھا جواب یہ ہے کہ:
4... دوسری طرف شفاعت کی قبولیت پر بھی دلائل موجود ہیں، لہٰذا دونوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے کہ معتزلہ کی پیش کردہ نصوص ،جو شفاعت کی نفی پر دلالت کرتی ہیں، کفار کے ساتھ خاص کر دی جائیں او راہل ایمان کے حق میں شفاعت روا رکھی جائے۔ ( والجواب بعد تسلیم دلالتھا علی العموم فی الأشخاص والازمان والأحوال أنہ یجب تخصیصھا بالکفار جمعاً بین الأدلة․ (شرح العقائد للنسفی، ص:116، مبحث: الشفاعة ثابتة)
دوسری دلیل اور اس کا علمی تجزیہ:
قرآن کریم میں ہے ولا یشفعون إلا لمن ارتضی․ (الانبیاء:28) (اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے الله راضی ہو۔) یہ آیت واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہے کہ استحقاق شفاعت کے دروازے انہیں پر کھلیں گے جن کی شفاعت پر الله تعالیٰ خود راضی ہوں گے ، نافرمان بندوں ( اہل کبائر) سے چوں کہ الله تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اس لیے ان کے حق میں کسی سفارش پر رضائے الہٰی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ ایک دیگر آیت ․﴿فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبیلک﴾․ ( سو معاف کر ان کو جو توبہ کریں اور چلیں تیری راہ پر۔) کا مفہوم بتارہا ہے کہ طلب مغفرت کا حکم انہیں کے لیے ہے جو کبائر سے توبہ کر چکے ہوں۔
جواب… منکرین شفاعت کے علم برداروں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ رضائے الہی کا پروانہ کس بنیاد پر ملتا ہے ؟ اس کا مدار کیا ہے ؟ ایمان بالله یا اعمالہ صالحہ؟ اگر اس کا مدار ایمان بالله ہے تو پھر یہ دولت ایک گناہ گار مسلمان کو بھی حاصل ہے، لہٰذا اس کے حق میں قبول شفاعت کا عقیدہ اختیار کرنے میں بخل سے کام نہ لینا چاہیے۔
اگر اس کا مدار اعمال صالحہ ہیں تو پھر تمہیں کھل کر یہ دعوی کرنا چاہیے کہ انصاف پسند کافر ، مجسمہ اخلاق ملحد بھی رضائے الہی کے شرف سے فیض یاب ہو کر شفاعت کا مستحق بن سکتا ہے، اگر تمہیں یہ تسلیم نہیں تو یہ مانے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلمان اگرچہ گناہ گار ہو، لیکن صاحب ایمان ہونے کی جہت سے الله تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہوتی ہے او رآیت کریمہ﴿ولا یشفعون إلا لمن ارتضی﴾ ․ ( الانبیاء:28) (اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے الله رضی ہو) میں رضائے الہی کی یہی جہت مذکور ہے۔
اور ﴿فاغفرللذین تابوا﴾ ( غافر:7) (سو معاف کران کو جو توبہ کریں) میں توبہ سے مراد شرک سے توبہ ہے۔ لہٰذا اس سے اہل کبائر کی عدم شفاعت کا استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ( بانا لانسلم ان من ارتضی لایتناول الفاسق، فإنہ مرتضی من جھة الإیمان والعمل الصالح، وان کان مبغوضاً من جھة المعصیة، بخلاف الکافر المتصف بمثل العدل أو الجور،فانہ لیس بمرتضی عند الله تعالیٰ اصلاً لفوات الحسنات وأساس الکمالات…، فإن المراد تابوا عن الشرک)․ (شرح المقاصد، المقصد السادس:3/401)
تیسری دلیل:
ایک دعا ہے جسے مسلمان شب وروز مانگتے ہیں اوراس کے صحیح ہونے پر سب کا اجماع ہے۔”اللھم اجعلنا من اھل شفاعة محمد صلی الله علیہ وسلم“․ ( اے الله! ہمیں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔)
اگر شفاعت اہل کبائر کی مغفرت کا نام ہوتا تو یہ دعا سرے سے صحیح ہی نہ ہوتی، کیوں کہ پھر اس کا مفہوم یوں ہوتا کہ اے الله ہمیں اہل کبائر میں داخل فرما، تاکہ شفاعت کے مستحق بن سکیں۔
جواب… اس دعا کا تعلق حا لتِ معصیت سے ہے، یعنی گناہ گار ہونے کی صورت میں شفاعت محمدی نصیب فرمانا، جس طرح ”اللھم اغفر لنا“ کے معنی ہیں اے الله ہماری مغفرت فرما۔ یعنی گناہ گار ہونے کی صورت میں اس کا یہ مطلب کوئی نہیں لیتا کہ اے الله! ہمیں گناہوں میں مبتلا کرکے پھر مغفرت فرما۔ ( ان المراد اجعلنا من اھل الشفاعة علی تقدیر المعاصی کما فی قولنا: اجعلنا من اھل المغفرة واھل التوبة․ (شرح المقاصد، المقصد السادس:3/401)
﴿وَإِذْ نَجَّیْْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوْء َ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء ٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ، وَإِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَیْْنَاکُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُون﴾․ (البقرة:49۔50)
اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے، جو کرتے تھے تم پر بڑا عذاب، ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں آزمائش تھی تمہارے رب کی طرف سے بڑی او رجب پھاڑ دیا ہم نے تمہاری وجہ سے دریا کو، پھر بچا دیا ہم نے تم کو اور ڈبا دیا فرعون کے لوگوں کو اور تم دیکھ رہے تھے۔
یہاں سے بنی اسرائیل پر ہونے والی عنایات خاصہ کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔
پہلی عنایت: نجومیوں نے فرعون کو یہ پیش گوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیری سلطنت زوال کے گھاٹ اتر جائے گی ۔ چناں چہ فرعون نے بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ذبح کرنے کا حکم جاری کر دیا ۔ سوائے لڑکیوں کے، تاکہ ان سے خدمت گزاری کا کام لیا جاسکے ، ہزاروں بچے فرعونی ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے، پوری قوم غم والم کی کیفیت میں مبتلا تھی ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا میرے اس احسان کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں اس ظلم سے نجات دی ﴿فی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم﴾․
”بلاء“ کے چندمعنی آتے ہیں اگر ذلکم کااشارہ ذبح کی طرف لیا جائے تو مصیبت کے معنی میں ہو گا او راگر نجات کی طرف اشارہ ہو تو ”بلاء“ نعمت کے معنی میں ہو گا او راگر مجموعہ کی طرف ہو تو امتحان کے معنی لیے جائیں گے۔ ( التحریر والتنویر، البقرة تحت آیہ رقم:49)
حضرت موسی علیہ السلام ایک طویل مدت تک فرعون کو دعوت حق دیتے رہے ، لیکن فرعون نے اس کا کوئی اثر قبول نہ کیا ، بالآخر الله تعالیٰ کے حکم سے آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو لیا اور فرعون کی بے خبری میں فرعون کی مملکت چھوڑنے کا قصد فرما لیا ، بحر قلزم کے کنارے پہنچے تو فرعون بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ آگے سمندر اور پیچھے دشمن۔ بنی اسرائیل کو موت کے آثار نظر آنے لگے۔ حضرت موسی ں نے تسلی دے کر فرمایا۔ ﴿إن معی ربی سیھدین﴾ اس موقع پر رب ذوالجلال کے حکم سے اپنی لاٹھی سمندر پر ماری تو بطور معجزہ سمندر کا پانی منجمد ہو گیا اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے بارہ راستے بن گئے ، جہاں سے گزر کر یہ بسلامت دوسرے کنارے اتر گئے ،فرعون نے دیکھا دیکھی میں اپنے گھوڑے بھی ان راستوں پر اتار دیے، جب درمیان میں پہنچا تو الله تعالیٰ کے حکم سے سمندر جاری ہو گیا اور طوفانی موجوں نے فرعون اور اس کے لشکر کو گھیر کر ہمیشہ کے لیے عبرت کا نمونہ بنا دیا، یہ الله تعالیٰ کی عنایت خاص ہے کہ ان کے دشمن کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کرکے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ، ثُمَّ عَفَوْنَا عَنکُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ، وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون﴾․ (البقرة:51۔53)
اور جب ہم نے وعدہ کیا موسی سے چالیس رات کا، پھر تم نے بنا لیابچھڑا موسی کے بعد او رتم ظالم تھے، پھر معاف کیا ہم نے تم کو اس پر بھی، تاکہ تم احسان مانو اور جب ہم نے دی موسی کو کتاب اور حق کو ناحق سے جدا کرنے والے احکام ،تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ۔
﴿وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِیْنَ لَیْْلَة﴾ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو آزادی نصیب ہوئی اور شب وروز کے تمام لمحے آزاد فضاؤں میں بسر ہونے لگے تو انہیں ایک ایسے مجموعہ قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی روشنی میں زندگی کے پیش آمدہ مسائل بآسانی حل کیے جائیں۔ قوم نے اس خواہش کا اظہار حضرت موسی ں سے کیا ۔ آپ ں نے قوم کی یہ درخواست بارگاہ الہی میں پیش کی، جواب میں آپ کو کوہ طور میں چالیس روز تک اعتکاف میں رہنے کا حکم ملا، جہاں آپ ذکرواذکار اور عبادت الہٰی میں مشغول رہے، جب چالیس دن تکمیل کو پہنچے تو الله تعالیٰ کی طرف سے تورات ملی، تورات عبرانی زبان میں قانون کو کہتے ہیں۔ ( روح المعانی، البقرة آیہ رقم:51)
﴿ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہ﴾جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور میں معتکف تھے تو بنی اسرائیل میں سے ایک شخص سامری نے سونے اور چاندی سے بچھڑے کا قالب بنا کر اس میں حضرت جبرائیل ں کے گھوڑے کے قدموں سے اٹھائی ہوئی خاک ڈال دی، جس کی تاثیر سے اس بچھڑے کے قالب سے مختلف آوازیں نکلنے لگیں، بنی اسرائیل حیران تھے کہ یہ کیا چیز ہے ؟ سامری نے یہ دعوی کرکے ان کی حیرت دور کر دی کہ اس بچھڑے میں الله تعالیٰ کی ذات حلول کر چکی ہے، یہی ہمارا معبود ہے، جس کی تلاش میں موسی علیہ السلام کوہ طور تشریف لے جاچکے ہیں، اتنے بڑے جرم کے بعد بھی توبہ کرنے پر الله تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ الله تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو ۔اس توبہ کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے۔
﴿وَإِذْ آتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ﴾”فرقان“ فیصلے کی چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ (مفردات الفاظ القرآن لراغب، فرق، ص:633)
اس سے یا تو وہ احکام شرعیہ مراد ہیں جو تورات میں مذکور تھے، جن سے عقائد اور عملی اختلافات کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیہ رقم:54) یا اس سے مراد وہ معجزات ہیں، جو سچے اور جھوٹے دعوی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (تفسیر روح المعانی، البقرة تحت آیہ رقم:54) یا یہ تورات ہی کی ایک صفت ہے، جو کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ فیصل کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ (تفسیر کشاف، البقرة تحت آیہ رقم:54)
﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾․(البقرة:54)
اورجب کہا موسی نے اپنی قوم سے! اے قوم تم نے نقصان کیا اپنا، یہ بچھڑا بنا کر، سواب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مار ڈالو اپنی اپنی جان، یہ بہتر ہے تمہارے لیے تمہارے خالق کے نزدیک، پھر متوجہ ہوا تم پر، بے شک وہی ہے معاف کرنے والا، نہایت مہربان۔
موسی علیہ السلام جب کوہ طور سے واپس تشریف لائے اور قوم کو مبتلائے شرک دیکھا تو سخت پریشان اور غمگین ہوئے، سامری کو ڈانٹا، شرک میں مبتلا جہلاء کو زجر وتنبیہ کی، انہیں اپنی غلطی اور مشرکانہ اعمال پر ندامت ہوئی، معافی اور توبہ کے خواست گار ہوئے، ان کی توبہ کی قبولیت کا یہ طریقہ تجویز ہوا کہ جو مسلمان شرک سے دور رہے وہ اپنے ہاتھوں سے ان عزیزوں اوررشتہ داروں کو تہ تیغ کریں جو گوسالہ پرستی میں مبتلاہو گئے تھے۔ یہ بڑا سخت امتحان تھا، لیکن اسی میں ان کے لیے خیر تھی کہ وہ اس جہاں میں مقتول ہو کر آخرت کے دائمی عذاب سے بچ گئے ۔ یہ سزا بالکل ایسی ہی تھی جیسے ہماری شریعت میں بعض گناہوں کی سزا توبہ کے باوجود قتل ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
اردو طبقہ کے بعض مفسرین نے اسے فتنہ ارتداد کی سزا قرار دیا ہے ، لیکن یہ درست نہیں، کیوں کہ بنی اسرائیل کو جب یہ سزا دی جارہی تھی اس وقت وہ اپنے مشرکانہ افعال سے توبہ کرکے سچے مسلمان بن چکے تھے ، تجدید ایمان کے بعدجو سزا دی جائے اسے ارتداد کی سزا نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں قتل کی سزا درحقیقت ان کی توبہ کا ہی ایک مرحلہ تھا ،نہ کہ ارتداد کی سزا کا ایک حصہ۔
﴿إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم﴾
دنیائے مسیحیت نے الله تعالیٰ کے متعلق یہ خیال اختیار کررکھا ہے کہ وہ قانونِ مکافاتِ عمل کا پابند ہے، اس لیے کسی گناہ گار کو سزا دیے بغیر معاف کرنا اس کے قانون کے منافی ہے، تاہم وہ رحیم بھی ہے ،جس کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کے گناہوں سے درگزر کیا جائے ۔ اس لیے اس نے اپنے بیٹے مسیح کو سب کی طرف سے سے بطور کفارہ سزا دے کر سب کو معاف کر دیا۔
یہودیوں نے خدا کی جباریت وقہاریت کو اس قدر زورو شور سے بیان کیاکہ رحمت الہی کی ساری تصویر دھندلی ہو گئی ۔ الله تعالیٰ نے اپنی شانِ توابیت اور شانِ رحیمی کو بیان کرکے تمام گم راہیوں کی تردید فرمائی۔
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نُّؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللَّہَ جَہْرَةً فَأَخَذَتْکُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ، ثُمَّ بَعَثْنَاکُم مِّن بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون﴾․(البقرة:55۔56)
اور جب تم نے کہا اے موسی! ہم ہر گز یقین نہ کریں گے تیرا جب تک کہ نہ دیکھ لیں الله کو سامنے، پھرآلیا تم کو بجلی نے او رتم دیکھ رہے تھے، پھر اٹھا کھڑا کیا ہم نے تم کو مر گئے پیچھے تاکہ تم احسان مانو۔
بنی اسرائیل کا لقائے الہی کا اصرار
حضرت موسی ں تورات لے کر قوم کے پاس تشریف لائے تو بعض اسرائیلیوں نے اسے کتاب الہٰی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ان کا اصرار تھا کہ الله تعالیٰ خود اعلان فرمائیں کہ یہ میری کتاب ہے ۔ الله تعالیٰ نے حضرت موسی ں کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے چیدہ چیدہ ستر افراد کو لے کر کوہ طور پر تشریف لے آئیں، جہاں انہیں یہ اعلان بھی سنا دیا جائے گا۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیہ رقم:55) کتاب الہٰی کی صداقت کا اعلان سننے کے بعد ان کا مطالبہ ہوا کہ جب تک ہم الله تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے ، چوں کہ اس آب وگِل کی دنیا میں رہ کر خدا کا دیدار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اس بے جا مطالبے اور گستاخی پر خدا کی طرف سے ایک بجلی آئی اور اس نے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔ ( تفسیر کبیر للرازی، البقرة تحت آیہ رقم:55) اس صورت حال میں بنی اسرائیل کی طرف سے اس بدگمانی کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ حضرت موسی ں نے کسی تدبیر سے ان تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہو گا۔ اس لیے حضرت موسی علیہ السلام نے ان کے لیے حیاتِ نو کی دعا فرمائی، جو قبول ہوئی او رانہیں ایک نئی زندگی سے سر فراز کیا گیا، یہ الله تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام تھا!!!
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَی کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَکِن کَانُواْ أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ، وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُواْ مِنْہَا حَیْْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ، فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَیْْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُون﴾․ (البقرة:57 تا59)
اور سایہ کیا ہم نے تم پر ابر کا اور اتارا تم پر من اور سلویٰ ،کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی او رانہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہ کیا، بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے رہے او رجب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں او رکھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو فراغت سے اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے او رکہتے جاؤ بخش دے تومعاف کر دیں گے ہم تمہارے قصور اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والے کو، پھر بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہہ دی گئی تھی ان سے، پھر اتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے، ان کی عدول حکمی پر۔ (جاری)