علما ء - اور - وعظ ونصیحت
مولانا محمد پرتاب گڑھی
وعظ ونصیحت کے سلسلے میں ایک روایت آتی ہے : ”: عَنْ عَوفِ بْنِ مَالِکٍ الأشْجَعِیِّ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :لَایَقُصُّ إلَّاأمِیْرٌ أومَامُورٌ أو مُخْتَالٌ “․
ترجمہ :حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :جب کوئی وعظ و بیان کرے گا تو وہ یاتو حاکم ہوگا،یا (حاکم کا) مقررکردہ شخص ہوگا اور یا متکبر ہوگا۔(ابوداؤد حدیث نمبر3665)
ایک عالم نے، مجدد ملت، حضرت اقدس، مولانا اشرف علی تھانوی سے استفسار کیا کہ حضرت !”میں جمعہ میں وعظ وبیان کیا کرتا تھا ؛مگر جب سے یہ حدیث: لایَقُصُّ إلَّاأمِیْرٌ… الخ، نظر سے گزری ہے ؛وعظ کہنا بند کردیا ہے،چوں کہ” امیر“ اور” مامور“ تو ہوں نہیں اورمتکبر بننے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں!حضرت تھانوی نے ارشاد فرمایا :آپ ”مامور“ ہیں؛کیوں کہ ”امیر“کے مقابلے میں جو ”مامور“ آیا ہے،مراد اس سے مامورمنَِ الأمیر ہے، یعنی مَنْ نَصَبَہ الْأمِیْرُ لِوَعْظِ النَّاسِ․
ترجمہ :امیر نے جس کو وعظ کے لیے متعین کیا ہو ۔اورقواعد شرعیہ سے ثابت ہے کہ جہاں امیر نہ ہو ؛عامة المسلمین ،جن میں اہل حل وعقد بھی ہوں؛ امیر کے قائم مقام ہوتے ہیں۔لہذا اگر عامة المسلمین کسی سے وعظ کی درخواست یا رغبت کریں اور اس شخص کے وعظ پر اہل فہم انکار نہ کریں؛تو وہ شخص یقینا ” مامور“ ہے ۔(بوادر النوادر ،1/75)
اس حدیث کی تشریح یہ ہے کہ وعظ وبیان کرنے کاکام، عام طور پر تین طرح کے لوگ کرتے ہیں۔اور ان میں سے دو طرح کے لوگ تو واقعی اس کام کا حق اور منصب رکھتے ہیں،ایک تو امیریعنی اسلامی سربراہ وحاکم۔ اور دوسرے وہ لوگ جن کو اس کام پر مامور کیا گیا ہو؛لہٰذا انہی دو طرح کے لوگوں کو وعظ وبیان کا کام انجام دینا چاہیے ۔رہا تیسری طرح کے لوگ یعنی ”متکبرین“ کا معاملہ ؛تو انہیں چوں کہ اس کام کا کوئی حق ہی نہیں پہنچتا ؛اس لیے وہ اس میدان میں ہرگز نہ اتریں ۔حکمت اس میں یہ ہے کہ اسلامی حاکم ،اپنی رعایا پر مہربان ہوتا ہے اور اپنی مملکت کے لوگوں کے حالات ونفسیات سے واقفیت رکھنے کے سبب ان گوشوں اور پہلوؤں کو خوب جانتا ہے جن میں اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے؛لہٰذا جب وہ وعظ و نصیحت کرے گاتوبصیرت کے ساتھ کرے گا؛جس کا اثر زیادہ اچھاپڑے گا۔اس طرح موعظت ونصیحت کا اول حق تو اسی سربراہ وحاکم کا ہے۔ اور اگر وہ خود یہ کام نہیں کرپائے گا؛تو پھر اس…ذمہ داری کو ان علمائے دین کے سپر د کرے گا؛جوبصیرت اورتقوی کے حامل ہوں گے اورطمع ولالچ سے خالی ہوں گے ،پس ”مامور “ سے مراد ایک تو وہ شخص ہوا ؛جس کو اسلامی حاکم نے مقر ر کیا ہو اور دوسرا وہ شخص بھی مراد ہے ؛جس کو اللہ تعالی کی طرف سے ”مامور “ہونے کی حیثیت حاصل ہو،یعنی وہ علمائے دین اور اولیاء اللہ ؛جو لوگوں کی ہدایت واصلاح کے نیک جذبے سے اور اپنے دینی فرائض منصبی کے تحت وعظ وبیا ن کرتے ہیں۔اور اس میں یہ تنبیہ ہے کہ ان دو طرح کے لوگوں کے علاوہ اور کوئی شخص یہ کام نہ کرے ۔اگر کوئی شخص مذکورہ منصب اور اہلیت نہ رکھنے کے باوجو د وعظ وبیان کا کام کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ وہ محض اپنی بڑائی کے اظہار اور پیشوابننے کی طلب وخواہش کے تحت یہ کام کررہا ہے اور مذکور ہ ممانعت کو جانتے ہوئے بھی ایسا کرکے ایک” متکبر“ انسان یا ایک ”ریا کار “شخص ہونے کا ثبوت دے رہا ہے ۔(مظاہر حق جدید،1/190)
در اصل اسلام کی دعوت کی قسمیں تین ہیں:1..تبلیغ 2.. تنکیر 3.. تذکیر۔
1... تبلیغ : یہ لفظ اگرچہ عام ہے ؛جو تذکیر وغیرہ کو بھی شامل ہے؛ تاہم عرف میں ”غیر مسلموں“ میں اسلام کی دعوت دینے کو تبلیغ کہاجاتا ہے؛ بَلَّغَ تَبْلِیْغا ًکے معنی ہیں؛ابتداء ً کوئی بات پہنچانا ۔تبلیغ اسلام کے مخاطب امت کے تمام افراد ہیں،سب مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے قول اور عمل سے اسلام کو پھیلانے اوراس کوعام کرنے میں حصہ لیں۔
2... تنکیر یہ کوئی اصطلاحی لفظ نہیں ہے ؛مگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مسئلہ کو سمجھنے کے لیے یہ تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔ ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر“ کی تشریح یہ ہے کہ معاشرہ میں آدمی اگر کوئی” برائی“ یا” ناحق بات“ دیکھے تو اپنی حیثیت اوربساط بھر اس کو روکنے کی کوشش کرے ؛ اگرطاقت ہے تو ہاتھ سے روک دے؛ورنہ زبان سے اس کے غلط ہونے کو کہے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو اپنے دل ہی میں اسے براسمجھے،ایسے ہی اچھے کام کرنے کا حکم کرتا رہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مخاطب بھی امت کے تمام افراد ہیں،امت کے ہر فرد کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ اچھائیوں کو اپنے قول وفعل سے پھیلائے اور برائیوں سے منع کرے۔
3... ”تذکیر“ یعنی مسلمانوں کو وعظ ونصیحت کرنا، تقریر اور بیان کرنا۔ذَکَّرَ تَذْکِیْرًا کے معنی ہیں:یاد دہانی کرانا۔یاد دہانی مسلمانوں کو کرائی جاتی ہے ؛چوں کہ اسلام کے تمام احکام اجمالا اس کو پہنچ چکے ہیں؛اب تفصیلا ان کو یاد دہانی کرائی جارہی ہے اور یاد دلایا جارہا ہے ۔اسی ” تذکیر “کی بابت حدیث میں کہاجارہا ہے کہ یہ امیر اور مامور کا کام ہے۔
” تذکیر “دراصل ”تذکیہ “و”تعلیم “ کے قبیل سے ہے۔اس میں شریعت کے احکام ومسائل اوراسرار ونکات بیا ن کیے جاتے ہیں۔یہ کام خصوصی طورپر وارثین انبیاء کا ہے ؛ انبیاء کے وارث کون لوگ ہیں ؟اورآپ کی وراثت کیا چیز ہے ؟ اس سلسلے میں حدیث ہے : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم: إنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأنْبِیَاءِ، وَإنَّ الأنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَما ً، وَإنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أخَذَہ ُأخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ․
ترجمہ : جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : علماءِ دین ”انبیاء“ کے وارث ہیں ،اور انبیا اپنا ورثہ دینار ودرہم ( مال واسباب)کی صورت میں چھوڑ کر نہیں جاتے ؛وہ تو اپنا ورثہ صرف” علم دین“ کی صورت میں چھوڑ کرجاتے ہیں۔لہذاجس نے دین کاعلم حاصل کیا ؛اس نے پورا حصہ پالیا۔(ترمذی 5/47،ابوداؤد4/57 ) ۔اس نیابت کو نبھا نے کے لیے نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم کی وراثت کا حامل ہونا ضروری ہے ۔جس کے حصول کے لیے سب کو مواقع نہیں اور جس نے اس کام کے لیے موقع نکالا ،جد و جہد اور محنت کی ہے ؛اسی کو عالم کہاجاتا ہے ۔
وعظ ونصیحت میں ذرا سی کوتاہی اور غلطی وبال جان بن سکتی ہے، اس میں بڑ ی احتیاط کی ضرورت ہے ؛ چوں کہ اگر حدیث کے بیان میں کچھ کوتاہی ہوئی ؛تو اس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم: إتَّقُوا الْحَدِیْثَ عَنِّی إلَّا مَاعَلِمْتُمْ، فمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَالْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ ․
ترجمہ :حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :میری طرف سے حدیث بیان کرنے میں احتیاط برتو؛(کیوں کہ) جو(شخص )میری جانب غلط بات جان بوجھ کر منسوب کرے ؛وہ شخص اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔(ترمذی 5/183وقال حدیث حسن،مرقات 1/444)۔ایسے ہی قرآنی آیات کا مطلب بیان کرنے کی بابت حدیث میں آتا ہے :
عن جُنْدُ بٍ قَالَ :قَالَ رَسُول اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم ”مَنْ قَالَ فِی الْقُرآنِ بِرَأیِہ فَأصَابَ فَقَدْ أخْطَا․“
ترجمہ:جس نے قرآن (کے بیان) میں اپنی طرف سے کوئی بات کہی ؛ گوکہ اس نے صحیح بات کہی ہو؛مگراس نے غلط کیا ہے۔(ابوداؤد 4/63، ترمذی 5/183، مرقات المفاتیح 1/446)
ایک دوسری حدیث ہے : مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأیِہ فَلْیَتَبَوَّأمَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ․
ترجمہ:جس نے قرآن (کے بیان )میں اپنی طرف سے کوئی بات کہی ؛وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔(ترمذی 5/183وقال: حدیث حسن،مرقات 1/444) وعظ ونصیحت میں سامعین کے مزاج و مذاق اوروقت کے لحاظ کی بھی بڑی ضرورت ہے ؛چوں کہ اگرلوگوں نے اکتاہٹ یا روگردانی کا مظاہر کیا؛ تو یہ روگردانی اور اکتاہٹ درحقیقت کتاب اللہ ا ورسنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے شمارہو گی ؛جس کا انجام بڑا بھیانک ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لَاتُمِلَّ النَّاسَ ہٰذَاالْقُرْآنَ ․ لوگوں کو اس قرآن سے اکتاہٹ میں مت ڈالو!(بخاری ،11/38)۔
مقام اورجگہ کا خیال بھی نہایت ضروری ہے؛چوں کہ ایک چیز اگر چہ فی نفسہ صحیح اوردرست ہوتی ہے ؛لیکن وقت اورمقام کے بدلنے سے وہی چیز باطل اورغلط ہوجاتی ہے،صحابہ کرام کے شاگر د اورتابعین کے سردار حضرت سعید بن مسیب رحمة اللہ علیہ نے ایک شخص کونماز عصر کے بعد نفل پڑھتے ہوئے دیکھا؛تو اس نے کہاحضرت !کیا اللہ مجھے اس (عبادت)کی وجہ سے عذاب دیں گے؟ حضرت نے فرمایا : ہاں! لیکن یہ عذاب نماز کی وجہ سے نہیں ہوگا ؛بلکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت کی وجہ سے ہوگا۔(دارمی) معلوم ہواکہ نیک کام بھی اگر اپنے محل اور مقام پر ہو ؛تبھی مفید ہے ؛ورنہ مضر اورنقصان دہ ہے۔آج کل دیکھاجارہا ہے کہ بعض لوگ جاوبے جاجگہوں مثلا نماز جنازہ وغیرہ میں وعظ وبیان کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں،حالاں کہ ”نماز جنازہ“ وعظ ونصیحت کا مقام نہیں ؛یہ تو میت کی خوبیاں بیان کرنے اور فکر آخرت کی جگہ ہے ،حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزراتو آپ نے فرمایا :”أثْنوا عَلَیْہِ “․یعنی اس کی خوبیاں بیان کرو ۔(السنن الکبری، با ب الثناء علی المیت) علامہ شامی فرماتے ہیں: وَیَنْبَغِی لِمَنْ تَبِعَ الْجَنَازَةَأن یُّطِیْلَ الصَّمْتَ۔یعنی میت کے ساتھ چلنے والے شخص کے لئے بہتریہ ہے کہ وہ خاموش ہی رہے ۔(ردالمحتار3/138)اور اگرذکر واذکار میں مشغول ہوناہی ہے تو اس کے لیے حکم یہ ہے: فَإنْ اَرَادَ أن یَّذْکُرَا اللّٰہ تَعالی یَذْکُرُہ فِی نَفْسِہ۔یعنی اگر کوئی ذکر واذکار کرنا چاہتاہے تودل ہی دل میں کرے۔ (ردالمحتار3/138)
جنازہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کیسے رہا کرتے تھے ؟روایت ہے: عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ:کَانَ أصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله علیہ وسلم یَکْرَہُونَ رَفْعَ الصَّوتِ عِنْدَ الْجَنَائِزِ، وَعِنْدَ الْقِتَالِ، وَعِنْدَ الذِّکْرِ․“
ترجمہ: حضرت قیس بن عبادہ فرما تے ہیں کہ رسول للہ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جنازے ،جہاد اورذکر کے وقت آواز بلند کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے ۔(السنن الکبری ،باب کراہیة رفع الصوت عند الجنائز) ۔
حضر ت حسن بصری ،حضرت سعید بن مسیب،حضرت سعیدبن جبیر اور حضرت ابراہیم نخعی رحمہم اللہ (یہ تمام حضرا ت ،صحابہ کرام کے شاگرا ور کبار تابعین میں ہیں،ان)کے بارے میں آتا ہے کہ یہ حضرات جناز ہ میں اس بات کو بھی مکروہ سمجھے تھے کہ کوئی شخص کہے :إسْتَغْفِرُوااللّّٰہَ غَفَرَ اللّٰہ لَکُمْ!
ترجمہ :لوگو!ستغفار کرو:اللہ تمہاری مغفرت فرمائے (السنن الکبری ) (ضروری احوال اورخصوصی تقاضے اس سے مستثنی ہیں) ۔
حاصل کلام یہ کہ وعظ ونصیحت بڑی ذمہ دار ی کا کام ہے ؛اس میں علمی پختگی ہی نہیں؛بلکہ لوگوں کے مزاج ومذاق اوروقت وحالات کی پہچان بھی ضروری ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں: حَدِّثِ النَّاسَ کُلَّ جُمْعَةٍ مَرَّةً، فَإنْ أبَیْتَ فَمَرَّتَیْنِ، فَإنْ أکْثَرْتَ فَثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَلَاتُمِلَّ النَّاسَ ہٰذَاالْقُرْآنَ، وَلَااُلْفِیَنَّکَ تَاتِی الْقَومَ وَہُمْ فِی حَدِیْثٍ مِنْ حَدِیْثِہِمْ، فَتَقُصَّ عَلَیْہِمْ، فَتَقْطَعُ عَلَیْہِمْ حَدِیْثَہُمْ، فَتُمِلَّہُُمْ، وَلٰکِنْ أنْصِتْ، فَإنْ أمَرُوکَ فَحَدِّثْہُمْ، وَہُمْ یَسْتَشْہَدُونَ․
ترجمہ : ہرہفتہ میں ایک بار لوگوں میں وعظ ونصیحت کرواوراگر تمہیں یہ پسند نہ ہو تو پھر دو بار اوربہت کرو تو تین بار ۔لوگو ں کو اس قرآن سے اکتاہٹ میں مت ڈالو!اور( دیکھو!)میں تمہیں اس حال میں نہ پاؤں کہ تم کچھ لوگوں کے پاس آؤ اور وہ اپنی کسی بات میں مشغول ہوں ،پھر تم ان کے سامنے وعظ کرنا شروع کرکے؛ ان کی بات بیچ میں کاٹ دو ،نتیجتاًوہ تمہارے سبب اکتاہٹ میں مبتلاہو جائیں؛بلکہ (اس وقت تمہیں چاہیے کہ )خاموش رہواورجب لوگ تم سے (وعظ ونصیحت کی ) فرمائش کریں تو ان کے سامنے بیان کرو؛درآ نحالیکہ وہ (تمہاری باتیں سننے میں)رغبت ودلچسپی رکھتے ہوں۔ (بخاری ،11/138،مسند احمد)
علماء کو ن لوگ ہیں؟
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ علماء سے مراد ہیں کون لوگ ؟کیا ہرٹوپی ،کرتا اورداڑھی والاعالم کہلانے کا مستحق ہے ؟یا اس کے لیے کسی خاص صلاحیت کی ضرورت ہے ؟عالم وہ ہے ؛جو قرآن وحدیث جانتاہو،تفسیر ،اصول تفسیر اور اصول حدیث پر دست رس رکھتاہو۔اوریہ بھی جانتاہوکہ قرآن وحدیث سے مسائل نکالنے کا طریقہ کیاہے؟یعنی فقہ و اصول فقہ وغیرہ۔مگر ان چیزوں کوجاننے سے پہلے علوم عربیہ :نحو ،صر ف ،علم معانی اوربیان کے ایک معتد بہ حصہ کو جاننا بھی ضرروی ہے ؛چوں کہ اس کے بغیر آدمی قرآن وحدیث تک پہنچ ہی نہیں سکتا ہے۔چہ جائے کہ اسے سمجھے۔پھر قرآن وحدیث کسی معتبر آدمی سے پڑھنا بھی ضروری ہے ،چوں کہ استاذ کے نظریات شاگر د پر پڑتے ہیں؛چناں چہ”امام مسلم“ نے مقدمہ مسلم میں لکھا ہے :إنَّ ہٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَاخُذُونَ دِیْنَکُمْ.
ترجمہ: یہ(قرآن وحدیث کا) علم درحقیقت دین ہے ،لہذا اچھی طرح دیکھ بھال لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کررہے ہو؟۔
ایسا ماہر وکامل شخص ”عالم“ کہلا سکتا ہے ؛لیکن دیکھا جائے گا کہ اس کے اندرخشیت الہٰی اور تقوی ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں ہے؛ تو اس حدیث کو بھی یاد رکھناچاہیے ؛نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :ألَا! إنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ۔
ترجمہ :سن لو! برے لوگوں میں سب سے بدترین علماء ہیں۔ (دارمی266) لیکن اگر خشیت اورتقوی ہے(جس کا پتہ حرام سے بچنے اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عامل ہونے سے چلتاہے )؛تو سمجھ لیجیے ؛یہی لوگ عالم کہلانے کے حقیقی مصداق ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب احبارسے سوال کیاکہ علماء کون ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا :اَلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ بِمَایَعْلَمُونَ .
ترجمہ :علماء وہ لوگ ہیں جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔(درامی 587)انہی علماء کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے :﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِ ہ الْعُلَمَاءَ﴾.
ترجمہ:اللہ کے بندو ں میں علماء ہی اللہ سے ڈر نے والے ہیں۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کے بارے میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :إنَّ خَیْرَالْخَیْرِ خِیَارُ الْعُلَمَاءِ.
ترجمہ:اچھوں میں سب سے اچھے علماء ہیں۔(دارمی)یہی علماء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی وارث اور دین اسلام کے سچے نگہبان ہیں۔ان کی شان یہ ہے کہ اگر کسی شخص،کسی تحریک یا کسی جماعت کی جانب ان حضرا ت کا رحجان ہے اور یہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں تو سمجھ لیجیے، وہ جماعت عند اللہ مقبول ہے ۔ چوں کہ اللہ کی محبت کا اثرمخلصین بندوں پر سب سے پہلے پڑتاہے،چناں چہ حدیث میںآ تا ہے کہ اللہ اپنی محبوبیت کا اعلان اولاً ملائکہ مقربین کے درمیان کرتے ہیں ؛پھر وہاں سے رفتہ رفتہ”الأقرب فالأقرب“ اس محبت کا اثر پہنچتا ہے،بالآخر یہ مجبوبیت سارے عالم میں پھیل جاتی ہے۔ اورقرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس دنیا میں اللہ کے مخلص ومقرب ترین لوگ علماء ہیں ،تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں اگر کوئی شخص، کوئی جماعت یاتحریک اللہ کو پسند اورمحبوب ہے ؛ تو یقینا وہ ان علماء کے نزدیک بھی پسندیدہ اورمقبول ہوگی؛چوں کہ ان سے بڑا نہ کوئی بزرگ ہے اورنہ کوئی ولی۔
تم بحمد اللہ، وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین․