Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1434ھ

ہ رسالہ

7 - 17
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

حج کس پر فرض ہے اور کب فرض ہے؟
سوال… حج کس پر فرض ہے اور کب فرض ہے تفصیل بتائیں؟

جواب … حج ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو کہ آزاد ہو، مکلف ہو(یعنی عاقل بالغ ہو) صحیح ہو، قیدی نہ ہو، راستہ پُرامن ہو، اتنی مقدار میں مال ہو کہ اس کے اہل وعیال کا خرچہ اور آمدورفت کا خرچہ پورا ہو سکے۔

حج فرض ہونے کی شرائط
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ کن لوگوں پر حج فرض ہے یاکن شرائط کی بنا پر حج فرض ہوتا ہے؟

جواب… فریضہٴ حج کے لیے سات شرائط ہیں۔
مسلمان ہونا حج کی فرضیت کو جاننا کہ اس پر حج فرض ہے عاقل ہونا بالغ ہونا آزاد ہونا حج کی استطاعت رکھنا اشہر حج (حج کے مہینوں) کو پانا، یہ شرائط جن میں پائی جائیں گی ان پر حج فرض ہو جائے گا۔

بغیر محرم عورت کا حج کرنا کیسا ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علما کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں ایک خاتون (بیوہ) جو ماسی ہے اس کے ساتھ اس کی بہو ہے وہ بھی بیوہ ہے، دونوں پر حج فرض ہے ساتھ جانے کے لیے محرم میسر نہیں اور اتنی گنجائش بھی نہیں کہ کسی کو ساتھ لے جاسکیں اب دونوں حج پر جانا چاہتی ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہ کیسا ہے؟ اور اگر چلی گئی تو شرعی اعتبار سے حج مقبول ہو گا یا نہیں؟ نیز خانہ کعبہ کی زیارت کا بہت اشتیاق رکھتی ہیں۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب… عورت پر حج کے فرض ہونے کے لیے محرم مرد یاشوہر کا ہونا شرط ہے۔ اگرایک عورت کے پاس اتنا مال ہے جس سے ایک آدمی حج کرسکے تو اس عورت پر حج فرض نہیں جب تک کہ ساتھ جانے والے محرم کا خرچ بھی پاس نہ ہو، لہٰذا مذکورہ صورت میں اس پر اور اس کی بہو پر حج فرض نہیں ، اس لیے جب تک محرم کا انتظام نہ ہو الله رب العزت سے خوب رو رو کر دعائیں مانگی جائیں، وہی مسبب الاسباب ہے بہت جلد کوئی سبب بنا دے گا۔ اگر ساری زندگی خدانخواستہ کوئی صورت نہ بن سکی تو حج بدل کی وصیت ضروری ہے۔

سود والی رقم سے حج بدل کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علما ئے دین ومفتیان شرع متین بیچ اس مسئلے کے کہ ایک صاحب سود پر پیسے لیتے دیتے تھے، فوت ہو گئے ان کی نرینہ اولاد نہ تھی، ان کی بیٹیوں کو ایک مال دار شخص اور اس کی بیوی نے حج بدل کے لیے آمادہ کر لیا۔ دونوں میاں بیوی اس سودی ترکے سے حج کے لیے چلے گئے، حالاں کہ وہ دونوں پہلے بھی حج کر چکے تھے، ایسے حج کی قرآن وسنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟ اور ایسے میاں بیوی کے ساتھ اہل اسلام کو کیا معاملہ کرنا چاہیے؟

جواب…سود کھانے اور کھلانے والے پر الله کی لعنت ہے ایسی رقم سے کیے گئے حج پر کوئی ثواب نہیں ملتا ، یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے دربار میں غلاظت اور نجاست سے لت پت ہو کر جائے۔ لہٰذا ایسا حج بدل جس نے کیا اور جس کی طرف سے کیا گیا دونوں کو کوئی ثواب نہیں ملا، ایسے میاں بیوی پر توبہ واستغفار لازم ہے۔

احرام میں سوتے وقت منھ پر کپڑا لینا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: محرم حالتِ احرام میں رات کو آرام کرتے وقت چہرے پر کپڑا ڈال سکتا ہے یا نہیں؟ نیند کی حالت میں اگر غیر اختیاری طور پر منھ پر کپڑا ڈال لیا تو کیا حکم ہے؟

جواب… حالت احرام میں چہرے پر کپڑا نہیں ڈال سکتا، اگر پوری رات چہرہ ڈھانکے رہا تو دم آئے گا اور پوری رات سے کم چہرے پر کپڑا ڈالے رہا تو صدقہ لازم آئے گا۔

سرکاری یا نجی اداروں کا ملازمین کو حج کے لیے بھیجنا
سوال…مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کتاب وسنت کی رو سے آپ کا فتوی مطلوب ہے

حکومت پاکستان اور اس کے مختلف محکمے اسی طرح نیم سر کاری اور غیر سرکاری ادارے مختلف افراد کو مفت حج، عمرہ کرواتے ہیں ان مفت حج کرنے والے افراد میں وہ بھی ہوتے ہیں جو غریب ہوتے ہیں اور اپنے طور پر حج کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود صاحب استطاعت ہوتے ہیں ۔ مسئلہ زیر غور کے حوالے سے دریافت یہ کرنا ہے۔
(الف) کیا مفت حج کروانا یا کرنا درست ہے؟
(ب) کیا صاحب استطاعت اور غریب دونوں کا ایک ہی حکم ہے یا الگ الگ احکام ہیں؟
(ج) کیا حکومت یا کوئی بھی سرکاری/ غیر سرکاری ادارہ اس کا مجاز ہے کہ کسی کو مفت حج پر بھجوائے؟
(د) کیا کسی فرد کو کسی شعبہ میں اس کی اعلیٰ ونمایاں کارکردگی کے صلے/ انعام کے طور پر مفت حج پر بھیجا جاسکتا ہے؟

قرآن وسنت کی روشنی میں جواب سے مستفید فرمائیں۔

جواب… (الف، ب) سرکاری یا نجی ادارے مختلف صورتوں میں اپنے ملازمین کو مختلف النوع سہولتیں فراہم کرتے ہیں، جب یہ سہولتیں حکومتی قوانین میں درج ہوں، یا نجی ادارے اپنی طرف سے ملازمین کے لیے جاری کریں تو ملازمین کے لیے ایسے فوائد حاصل کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ اداروں کی طرف سے عطیہ اور تعاون ہوتا ہے جس طرح یہ فوائد حاصل کرنا جائز ہے، اسی طرح ادارے کی رقم سے حج ادا کرنا جائز ہے۔ چاہے ملازمین صاحب استطاعت ہوں یا غربت کی زندگی گزار رہے ہوں اور آئندہ کے لیے ان سے فرض ساقط ہو جائے گا چاہے بعد میں صاحب استطاعت ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مطلقاً فرمادیا ” حج فرض ایک مرتبہ ہی ہوتا ہے۔ جو اس سے زیادہ مرتبہ کرے گا وہ نفل شمار ہو گا۔“

لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ حج جیسی مقدس عبادت کے لیے بھیجنا لله فی الله اور استحقاق کی بنیاد پر ہونا چاہیے سیاسی رشوت کے طور پر یا انتخاب میں بے ضابطگی برت کر نہیں، ورنہ کسی پر مخفی نہیں ہے کہ ایسا حج لپیٹ کر منھ پر مار دیا جائے گا۔

(ج) سرکاری یا نجی ادارے اس طرح ادائیگی حج کے لیے بھیجنے کے مجاز ہیں، جب کہ قوانین کی پابندی کی جائے اور ادارے کے سربراہ کی طرف سے قواعد کے مطابق افراد کا انتخاب کیا گیا ہو۔

(د) او رملازمین کو حسن کارگردگی کی بنا پر بھی حج کروایا جاسکتا ہے۔ البتہ اتنا ضروری ہے کہ اگر زکوٰة کی رقم سے حج کروایا جائے تو اس شخص کا مستحق زکوٰة ہونا بھی لازم ہے اور اگر بعض آفیسرز قوانین کی پابندی نہ کریں اور متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حق دار اور مستحق اشخاص کے بجائے غیر مستحق افراد کو بھیج دیں تو ایسا کرنا جائز نہ ہو گا۔

روضہ اطہر پر حاضری کے آداب
سوال… مدینہ منورہ میں جو لوگ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قبر کے سامنے سے گزرتے ہیں ۔ اور روضہ اطہر پر حاضری دیتے ہیں تو حاضری کے آداب کیا ہیں اور سلام پڑھنا کس طرح بہتر ہے؟

جواب… حضرت ملاعلی قاری رحمہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضری کے آداب، درودوسلام پیش کرنے کے الفاظ اور طریقے بڑی تفصیل سے اپنی کتاب ” ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری“ میں ذکر فرمائے ہیں۔ مختصراً چند آداب اور درود وسلام کے صیغے ذکر کیے جاتے ہیں۔

جب آدمی مدینہ منورہ کی طرف چلے تو درود شریف کثرت سے پڑھتا رہے اور جوں جوں قریب ہوتا جائے اور زیادہ کثرت کرتا جائے، جب مدینہ منورہ کی عمارتوں پر نظر پڑے تو یہ دعا پڑھے: ”اللھم ھذا حرم نبیک فاجعلہ وقایة لی من النارو أماناً من العذاب وسوء الحساب“۔

مستحب ہے کہ مدینہ منور میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرے، پاک صاف عمدہ لباس جو پاس موجود ہو پہنے، اگر نئے کپڑے ہوں تو بہتر ہے۔ خوشبو لگائے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پیادہ چلے۔ اور اس شہر کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے نہایت خوش وخضوع ، تواضع، ادب اور حضور قلب کے ساتھ درود شریف پڑھتا ہوا داخل ہو اور یہ پیش نظر رکھے کہ یہ وہ زمین ہے جس پر جابجا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہوئے ہیں۔

جب مسجد نبوی میں داخل ہونے لگے تو باب جبرئیل سے داخل ہو اور پہلے دائیں پاؤں رکھے اور درود شریف پڑھ کر ” اللھم افتح لی ابواب رحمتک“ پڑھے، پھرپہلے ریاض الجنة میں آکر دو رکعت تحیة المسجد کی پڑھے، یہ وہ جگہ ہے جو قبر شریف اور منبر شریف کے درمیان ہے، حدیث شریف میں آتا ہے: ریاض الجنة جنت کا ٹکڑا ہے، اس سے فارغ ہو کر الله تعالیٰ کا اپنی اس حاضری کی توفیق اور سعادت بخشی پر شکر ادا کرے، اور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔ اس کے بعد روضہٴ اقدس کے پاس حاضر ہو اور سرہانے کی دیوار کے کونے میں جو ستون ہے اس سے تین چار ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو ،نہ بالکل جالیوں کے پاس جائے اور نہ ہی زیادہ دور بلاضرورت کھڑا ہو، اس طرح کہ رخ روضہٴ اقدس کی طرف اور پشت قبلہ کی طرف ہو اور یہ تصور کرے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم لحد شریف میں قبلہ کی طرف چہرہ مبارک کیے ہوئے لیٹے ہیں اور پھر نہایت ادب کے ساتھ درمیانہ آواز سے نہ بہت پکار کر اور نہ بالکل آہستہ، سلام کرے۔ یہاں چند الفاظ درودوسلام لکھے جاتے ہیں۔

” السلام علیک أیھا النبی ورحمة الله وبرکاتہ، السلام علیک یا رسول الله، السلام علیک یا حبیب الله، السلام علیک باخیر خلق الله، السلام علیک یا صفوة الله، السلام علیک یا سید المرسلین، یا رسول الله إني أشھدأن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، وأشھد أنک عبدہ ورسولہ۔ أشھد انک بلغت الرسالة، وأدیت الامانة، ونصحت الامة، وکشفت الغمة فجزاک الله خیراً، جزاک الله عنا أفضل ماجازیٰ نبباً عن أمتہ۔ السلام علیک یا من ارسلہ الله رحمة للعالمین، السلام علیک یا مبشر المحسنین ( ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری ص338)۔ 
Flag Counter