Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 17
صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی…
شیخ الحدیث،حضرت مولانامفتی عبدالمجیددین پوری شہیدؒ
مولانا محمد اسامہ مجاہد دین پوری
حضرت چچاجان شہیدنوراللہ مرقدہ کی شخصیت مجموعہ محاسن، بلکہ ایک ”حسین گلدستہ“ تھی۔ جس میں رنگا رنگ کے خوب صورت پھول جمع کردیے گئے تھے۔ اُن کے پاس سب کچھ تھا۔ علم،عمل،اخلاص، نسبت، مردانگی،حق گوئی، فقاہت، نجابت، ذوق اور دلیری۔ اور ان تمام اوصاف میں آپ کا نمایاں اور بے مثال وصف ”علم“ تھا۔ جس کی جھلک آپ کے فتاویٰ، مجالس،بیانات،گفتگو اور آپ کی تدریس، غرضیکہ ہر جگہ نظر آتی تھی۔آپ بیک وقت محدث، مفتی، مدرس، مصلح اور اپنے اکابر کے صحیح جانشین تھے۔ذیل میں حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کے ”مختصر حالات“ اور ”بعض اوصاف حسنہ“ کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔بندہ ابھی ابتدائی درجات کا طالب علم ہے، قلم کی جولانیوں سے ناواقف ہے، لہٰذاقارئین کرام تحریرکو ”فن تحریر“ کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے ”محبت وعقیدت“ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔اور اس میں تحریری چاشنی تلاش کرنے کے بجائے حضرت چچاجان شہید کے قابل تقلید اوصاف کو عمل میں لانے کی سعی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

جون1951ء میں فاضلِ دیوبند، حضرت مولانامحمدعظیم صاحب رحمہ اللہ کے گھر ”دین پور شریف“ میں ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے، جس کا نام ”عبدالمجید“ رکھا جاتا ہے۔ وہ بچہ ملک کی مشہور ومعروف دینی درس گاہ ”جامعہ مخزن العلوم،خان پور“ میں حضرت قاری عبیداللہ صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم کے حصول کے بعد حضرت مولاناعبیداللہ درخواستی کی آغوش میں چلا جاتا ہے، وہ اسے فارسی، صرف ونحواور دیگر علوم وفنون کی تعلیم دیتے ہیں، استاد کی بچے پر توجہ اور بچے کی اُن کے ساتھ وفا کا اندازہ اس سے لگائیے کہ: استاذ”جامعہ مخزن العلوم“ میں پڑھاتے ہیں تو بچہ ”مخزن“ میں اُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہے… کسی وجہ سے استاذ ”مخزن العلوم“چھوڑ کر قریبی گاوٴں ”سرتاج گڑھ“ جا بیٹھتے ہیں تو بچہ بھی وہاں پہنچ جاتا ہے…استاذ ”جامعہ فاروقیہ،لیاقت پور“ کی مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو یہ بچہ وہاں بھی ہونہار شاگردوں کی پہلی صف میں نظر آتا ہے… استاذ”سہجہ“ کی تاریک فضاوٴں میں علوم کی روشنی پھیلاتے ہیں تو یہ لائق تلمیذ وہاں بھی صفِ اول میں دکھائی دیتا ہے۔ مولاناعبیداللہ درخواستی صاحب کا یہ قابل فخر شاگرد ”جامعہ انوریہ،طاہروالی“ میں شیخ المعقولات مولاناحبیب اللہ گمانوی، جامع المعقول مولانامنظوراحمدنعمانی، اور ماہرعلوم عقلیہ مولاناحاجی محمد احمد صاحب مدظلہم سے بھی شرفِ تلمذ حاصل کرکے فنون میں قابلیت پیدا کرلیتا ہے۔ مولانامحمدعظیم  کا یہی قابل رشک بیٹا ”جامعہ عربیہ احیاء العلوم، ظاہرپیر“ میں شیخ التفسیر،جامع المعقول والمنقول حضرت مولانامنظوراحمد نعمانی صاحب مدظلہم سے بھی فیض یاب ہوکر علوم وفنون میں مضبوط استعداد ومہارت کے ساتھ دین اور اہل دین کے ساتھ عشق ووفا کا سبق بھی لیتا ہے۔منظورَین کا یہ نُورِ نظر حافظ الحدیث حضرت درخواستی رحمہ اللہ کے پاس دومرتبہ ”دورہٴ تفسیر“ میں شریک ہو کر قرآنی علوم ومعارف کو جذب کرتا ہے۔ 1967ء میں دین پورشریف کا یہ سپوت عظیم دینی درس گا”جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ بنوری ٹاوٴن،کراچی“ میں درجہ سادسہ میں داخل ہوکر اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے۔1970/71ء میں دورہٴ حدیث شریف اور1973/74ء میں تخصص کے بعد اپنی عظیم الشان مادرِ علمی سے سند فراغت حاصل کرکے ”عبدالمجید“ سے ”مولانامفتی عبدالمجید“ بن جاتے ہیں۔

فراغت کے متصل بعد مفتی عبدالمجید صاحب اپنے ہم نام عظیم بزرگ حکیم العصر مولاناعبدالمجید لدھیانوی مدظلہم کے حکم پر ”جامعہ حسینیہ،شہدادپور“ میں مسند تدریس پہ رونق افروز ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسال وہاں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔… پھر ایک سال پرانے تبلیغی مرکز خان پور میں اور ایک سال ظاہرپیر میں پڑھاتے ہیں۔جب مولاناعبدالمنان صاحب رحمہ اللہ اپنے نواسے (مولانامفتی عبدالمجیدصاحب) کو ظاہر پیر لے جاتے ہیں تو حضرت نعمانی مدظلہم سے عرض کردیتے ہیں کہ: ”یہ یہاں فی سبیل اللہ پڑھائے گا، آپ صرف اس کے ذمہ سبق لگادیں۔“چناں چہ مفتی عبدالمجید صاحب روزانہ دین پور شریف سے ظاہر پیر جاتے اور سبق پڑھا کر واپس آجاتے ہیں۔…پھر فیصلہ خداوندی کے تحت کچھ عرصہ تدریس کا سلسلہ منقطع رہتا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر سیف اقبال غازی صاحب کے ساتھ ڈسپنسری کا کام کرتے ہیں۔… پھر اپنے آبائی گاوٴں دین پور شریف میں پڑھانا شروع کردیتے ہیں اور 1987ء تک وہیں درس وتدریس سے وابستہ رہتے ہیں۔…1988ء میں ”جامعہ اشرفیہ،سکھر“ میں مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔… 1995/96ء میں آپ کو باصرار اپنی مادرِ علمی، عالمی دینی درس گاہ ”جامعہ علوم اسلامیہ،بنوری ٹاوٴن،کراچی“ لے جایا جاتا ہے اور جاتے ہی ”نائب رئیس: دارالافتاء“ کا منصب جلیل آپ کے سپرد ہوجا تا ہے۔ حضرت مولانامفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہم کی بنگلہ دیش واپسی پر آپ ”رئیس دارالافتاء“بن جاتے ہیں۔ … 1996/97ء میں ”جامع مسجدالحمرا“ کی امامت وخطابت کی مسند سنبھالتے ہیں، کچھ عرصہ صبح قرآن پاک کا اور شام کو مشکوٰة شریف کا درس دیتے ہیں، پھر تین دن قرآن پاک کا اور تین دن مشکوٰة شریف کا اور آخر میں صرف مشکوٰة شریف کا درس دیتے رہتے ہیں۔…4/5سال ”جامعہ درویشیہ“ کے ”شیخ الحدیث“ کے منصب پر فائز رہتے ہیں…10سال ”معہدالخلیل“ کے ”صدرمفتی“ کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں۔… اور31جنوری2013کو اپنے فرزندوں مولانامحمدزبیر، مولانامحمدعزیر، محمدعمیراور محمدشعیب کو روتا چھوڑ کر زبانِ حال سے یہ کہتے ہوئے شہادت کا تاج سر پر سجالیتے ہیں #
            کلیوں کو میں خونِ جگر دے کے چلا ہوں
            صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی

چندصفات حسنہ
حضرت چچاجان شہید میں ”ذوقِ عبادت“ انتہا درجے کا تھا۔آپ کے ہاں معمول تھا کہ جمعہ کے دن ،جمعہ کی نماز کے بعد وسیع وعریض دسترخوان لگا کرتا تھا، جملہ احباب واعزہ آپ کی اس دعوت میں شرکت کرتے تھے۔ دسترخوان کے انتظار میں بیٹھے بھی آپ وقت ضائع نہیں فرماتے تھے، بلکہ قرآن پاک اٹھاکر تلاوت شروع فرمادیا کرتے تھے۔…کاوٴنٹنگ تسبیح اکثراوقات آپ کے ہاتھ سے بندھی رہتی، کام کے ساتھ ساتھ ذکراذکار کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔…تہجد کے لیے بیدار ہوتے، تہجد کے بعد قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اور جلد ہی مسجد تشریف لے جایا کرتے تھے۔ تہجد کے وقت گھر والے دودھ گرم کرکے پیش کرتے، کبھی تاخیر ہوجاتی تو فرمایا کرتے تھے کہ: مجھے ٹھنڈا دودھ ہی دے دیا کرو!

چچاجان شہید رحمہ اللہ” آداب مسجد“ کا بھی خوب خوب خیال رکھتے تھے۔بارہا آپ کے اس قابل تقلید ولائق رشک معمول کا مشاہدہ کیا گیا کہ جب بھی مسجد میں تشریف لے جاتے تو موبائل گھر ہی چھوڑ جایاکرتے تھے۔حالاں کہ اس قدر کثرت سے فون آتے کہ شاید ہی کوئی وقت ایسا ہوجس میں فون نہ آئے۔ لیکن آپ خالق سے لَو لگانے کے دوران مخلوق سے تعلق وربط کو پسند نہیں فرماتے تھے۔…اسی طرح جب گھٹنوں میں تکلیف ہوئی تو عصا کے سہارے چلتے تھے، لیکن جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تو احترامِ مسجد میں اول تو عصا کو گھر ہی چھوڑ جاتے تھے، اگر مجبورا لے جانا پڑتا تو مسجد کی حدود سے باہر تک استعمال فرماتے تھے۔ مسجد میں بالکل استعمال نہیں فرماتے تھے۔

حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ میں ”اکابر کا ادب“ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جب کبھی اپنے مرشد کی خدمت میں ”دین پور شریف“ حاضری دینے جاتے تو احتراماً عصاساتھ نہ لے جاتے، چاہے جتنی ہی تکلیف ہو۔ حضرت اقدس میاں سراج احمد دین پوری مدظلہم العالی کی خدمت میں آپ حاضری دیتے تو وہ ضعف علالت کے باوجودآپ کوملنے کے لیے اٹھنے یا سیدھے ہوکر بیٹھنے کی کوشش فرماتے، جب آپ نے یہ دیکھا تو حضرت میاں صاحب کی اس تکلیف کے خیال سے سامنے جانے سے گریزفرما نے لگے اور جب بھی حاضری دیتے، پشت کی جانب جاکر تشریف فرماہوتے تھے۔

ویسے تو آپ کو تمام علوم وفنون اسلامی میں وسعت نظر حاصل تھی، لیکن ممتازذکاوت اورذہانت نے آپ کو فقہ کا شیدائی بنادیاتھا، جزئیات کے ساتھ کلیات پر پوری دست رس تھی اور اصول فقہ آپ کا مزاج علمی بن چکے تھے، سوال نامہ پرنظر پڑتے ہی مسئلہ سمجھ جاتے، جواب پڑھتے اور فوری اصلاح دیتے جاتے۔فقہی جزئیات کا استحضار بھی کمال کا تھا،ایک ہی مسئلہ کے کئی کئی نظائر وشواہد بیان فرمادیتے تھے۔ہرقسم کے مسائل، حتیٰ کی میراث تک کے مسائل چٹکی بجانے میں حل فرمادیتے تھے۔ آپ کے شاگرد بتاتے ہیں کہ کبھی ہم نے آپ کو کسی مسئلہ میں تردد کا شکار ہوتا نہیں دیکھا اور نہ ہی ایسا ہوا کہ بعد میں غور وفکر کے بعد سابقہ رائے سے رجوع کی نوبت آئی ہو۔
            جس کے گفتارِ فقاہت کا عجب اعجاز تھا
            جس کے پاکیزہ عمل پر دین کو خود ناز تھا

حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کی زندگی ”اتباع سنت“ سے بھرپور تھی۔ کھانے، پینے، سونے اور مسجد میں داخل ہونے سے لے کر نمازپڑھنے، حتی کہ معاملات تک میں آپ ”اتباع سنت“ کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔…بندہ کے والد ماجد فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ ہمارے گھر تشریف لائے، آپ کا معمول تھا کہ روزانہ صبح غسل فرماکر کپڑے تبدیل کرتے تھے، اُس روز غسل کے لیے جانے سے قبل قضائے حاجت کے لیے گئے تو بیت الخلاء کے دروازے کے پاس پہنچتے ہی الٹے پاوٴں واپس لوٹے، اور فرمایا: اوہو! والد صاحب نے پوچھا : کیا ہوا؟ تو فرمایا: بے خیالی میں ننگے سر ہی جارہا تھا۔پھر سر پر تولیہ رکھ کر گئے۔…حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ اس سال حرمین کے سفر سے واپسی پر جب ہمارے گھر ”خان پور“ تشریف لائے تورات کو عشاء سے قبل فرمایا: تھکاوٹ بہت ہے، میں فقط فرض وسنن کے بعد کچھ دیر آرام کروں گا، بستر لگادو! مَیں نے اُن کی تھکاوٹ کے خیال سے عشاء کے فرائض میں تلاوت مختصر کی، یعنی قصارمفصل میں سے پڑھا، تو بعد میں مجھے فرمایاکہ: بھئی! پڑھنے کی رفتار کچھ بڑھالیا کرو، لیکن وہی سورتیں پڑھا کرو جو مسنون ہیں۔…اسی طرح ہماری مسجدکے امام صاحب کو آپ نے دیکھا کہ وہ درمیان درمیان سے پڑھتے تھے اور رفتار بہت ہی کم رکھتے تھے، یعنی مشق کے انداز میں پڑھتے تھے، تو والدماجد سے فرمایا: امام صاحب سے عرض کریں کہ:مسنون سورتیں پڑھاکریں، اُن کا ثواب زیادہ ہے اور رفتار کچھ بڑھا لیں، یعنی حدر میں پڑھا کریں۔
            پیشِ نظر وہ رکھتا تھا سیرت رسول کی
            ہر ہر عمل میں اس کے تھی سنت رسول کی

کافی عرصہ سے آپ کو بھی فون پر دھمکیاں مل رہی تھیں، لیکن آپ عام طور پرکسی سے ذکر نہیں فرماتے تھے۔بلکہ آپ کے ایک شاگرد نے بتایا کہ ایک مرتبہ بنوری ٹاوٴن کے ایک بڑے استاذالحدیث کے پاس نامعلوم خط آیا، جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ: ”ہم تمہارے بڑے مفتی کو قتل کریں گے۔“ اُن استاذ صاحب نے مسکراتے ہوئے وہ خط حضرت شہید  کو دیا اور مزاحا فرمایا:لوجی! آپ کا بُلاوا تو آگیا ہے، لیکن اس سب کے باوجود
            ڈرایا دار سے تو وہ ہنسا خوب
            تھی اس کے دل میں ایسی جاں نثاری
            وہ دشمن سے بھی ملتا مسکرا کر
            ملی حق سے اُسے وہ بُرد باری

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر ثابت قدم رکھے، اور ہم سب کو باہمی اتفاق واتحاد سے چچاجان کے مشن کو زندہ وتابندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
            رواں رہے گا یونہی قافلہٴ دین پوری
            عدُو نہ سمجھیں کہ ہم چوٹ کھا کے بیٹھ گئے
Flag Counter