اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز
حافظ فضل الرحیم
﴿عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم:کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَتَصَدَّقُوْا وَالبِسُوْا مَالَمْ یُخَالِطْ اِسْرَافٌ وَلَا مَخِیْلَةٌ﴾․
”حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے، فرمایا کھاؤ،پیو، خیرات کرواور پہنو، جب تک اس میں دو چیزیں نہ ہوں، ایک اسراف، دوسرے تکبر“۔
خالق کائنات نے ہمارے لیے دنیا کی تمام نعمتیں پیدا کیں۔انسان اس کے ذریعہ اپنے جسم کی نشوونما کرتا ہے‘کھانے اور پینے کے ذریعے انسان اپنے جسم کو طاقت و قوت پہنچاتا ہے‘لباس کے ذریعہ انسان اپنے بدن کو ڈھانپتا ہے، موسموں کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے بدن کو آراستہ اور خوش نما بھی بناتا ہے۔لباس کا یہی قصہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:﴿یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباساً یواری سواتکم وریشا﴾
”اے بنی آدم! تحقیق ہم نے تم پر لباس اتارا، تا کہ وہ تمہیں ڈھانپ دے اور موجب زینت ہو“۔
جب ہم ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جو حضور اکر م صلى الله عليه وسلم کے لباس کے بارے میں منقول ہیں تو معلو م ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو کپڑے پہنتے تھے وہ کپڑے عموماً سوتی قسم کے معمولی کپڑے ہوتے تھے، کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے قیمتی لباس بھی پہن لیتے تھے اس طرح بسا اوقات بہت خوش نما چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے۔
جب ہم ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جو حضورصلى الله عليه وسلم کے کھانے پینے کے بارے میں ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اوقات آپ کے دولت کدہ میں کئی کئی وقت فاقہ تک نوبت آجاتی تھی اور کبھی اتنا کھانا ہوتا کہ کئی کئی لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جاتا۔
حضور صلى الله عليه وسلم کے اس طرز زندگی سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ انسان کو اپنی زندگی کی ضروریات خدا کی مقررہ حدود میں رہ کر پوری کرنے کی مکمل اجازت ہے ۔انہی حدود کو اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں یوں بیان فرمایا: ﴿کلوا واشربوا ولا تسرفوا ان اللہ لا یحب المسرفین﴾․
”یعنی کھاؤ پیو، لیکن اسراف نہ کرو‘بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“۔
اسراف کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنی استطاعت اور ضرورت سے زائد خرچ کرے‘جسے ہم فضول خرچی بھی کہتے ہیں یعنی وہ چیز ہے جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد گرامی میں منع فرمایا،کہ تم کھاؤ اورپیو، لیکن ان میں دو باتیں نہ ہوں ایک اسراف یعنی فضول خرچی اور دوسری تکبر۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا ﴿ان اللہ لا یحب المسرفین﴾بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تکبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا﴿ان اللہ لا یحب المستکبرین﴾․
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نعمتیں عطا فرمائیں۔انسان کا فرض ہے کہ اسے دینے والے کی حدود کی پابندی کرے۔ یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اگر انسان کے پاس اچھے کپڑے پہننے کی گنجائش ہو تو پھر بھی اسے معمولی گھٹیا قسم کے کپڑے پہننے چاہییں۔اس غلط فہمی کو حضور صلى الله عليه وسلم نے اس وقت دور فرمادیا، جب ایک صحابی آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں تشریف لائے، اس حال میں کہ انہوں نے بہت معمولی گھٹیاقسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، حضور صلى الله عليه وسلم نے پوچھاکہ کیا تمہارے پاس کچھ مال ودولت ہے؟صحابی نے عرض کی ہاں،آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کس قسم کا مال ہے؟صحابی نے عرض کیا کے مجھے اللہ نے ہر قسم کا مال دیا ہے اونٹ بھی ہیں گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں، گھوڑے، غلام ،باندیاں سبھی کچھ ہے۔آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :”فاذا اتاک اللہ مالا فلیریٰ اثر نعمة اللہ علیک وکرامتہ“ ․
”جب اللہ نے تمہیں مال دولت سے نوازا ہے توپھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل و کرم کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیے“۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے کھانے …اور لباس کا معیار اپنی استطاعت کے مطابق رکھنا چاہیے۔اس میں بے جا اسراف اور فضول خرچی نہ ہو۔اور بخل بھی نہ کرے۔اچھے لباس، اچھے کھانے پر تکبر نہ کرے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے۔اس سے انسان کے اندر تکبر ختم ہو جائے گا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عطا کردہ نعمتوں کا صحیح استعمال اور ان کا شکر ادا کرنے کی تو فیق نصیب فرمائے۔